خیارِ شرط کیا ہے؟ نیز اسکی مدت اور اسباب

خیارِ شرط کی تعریف نیز اسکی مدّت اور اسباب

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ خرید و فروخت (بیع و شراء) کے معاملات میں "خیار" یعنی کسی چیز کو قبول کرنے یا رد کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔ اُن خیارات میں سے ”خیارِ شرط“ بھی ہے۔ اِس کی تعریف کیا ہے؟ اِس کی مدت کتنی ہوتی ہے؟ اور کن وجوہات یا اسباب کی بنیاد پر یہ خیار ختم یا ساقط ہو جاتا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

بعض اوقات خریدوفروخت کے وقت ایسا ہوتا ہے کہ فریقین میں سے کوئی ایک یا دونوں کسی چیز کو فوراً قبول یا رد کرنے کی کیفیت میں نہیں ہوتے۔ بائع یا مشتری کو مزید غور و فکر، مشورے یا کسی ماہر سے رائے لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض اوقات بائع کو یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی چیز سستے داموں فروخت نہ کر بیٹھے یا مشتری کو یہ خدشہ ہوتا ہے کہ وہ چیز خرید کر بعد میں نقصان نہ اٹھائے یا اُسے اُس چیز کی مکمل پہچان نہ ہو۔ ایسی صورت میں شریعت نے انہیں یہ گنجائش دی ہے کہ وہ عقد میں یہ شرط رکھ سکتے ہیں کہ مخصوص مدت کے اندر انہیں یہ اختیار حاصل ہو کہ چاہیں تو بیع منظور کر لیں، ورنہ رد کر دیں۔ یہ خیارِ شرط کہلاتا ہے۔

التعریفات الفقھیۃ“ میں خیارِ شرط کی تعریف یہ ہے:

خِيارُ الشرط: هو أن يشترط أحدُ العاقدين أو كلاهما الخيارَ بين قبول العقد وردِّه ثلاثة أيام أو أقلَّ۔

ترجمہ: خیارِ شرط یہ ہے کہ فریقین میں سے کوئی ایک یا دونوں، عقد کو قبول کرنے یا رد کرنے کا اختیار تین دن یا اس سے کم مدت کے لیے شرط کے طور پر طے کر لیں۔ (التعریفات الفقھیۃ، الصفحۃ 90، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

خیارِ شرط کی مدت:

اِس خیار کی زیادہ سے زیادہ مدت تین دن ہے۔ بہار شریعت میں ہے: خیار کی مدت زیادہ سے زیادہ تین دن ہے، اس سے کم ہوسکتی ہے، زیادہ نہیں۔ (بھار شریعت، جلد 2، صفحہ 649، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

اسباب ِسقوط: یہ خیار ساقط ہونے کے دو اسباب ہیں اور ہر سبب کی ذیلی صورتیں ہیں۔

(1)اختیاری

(1)صریح

واضح لفظوں سے بیع کو قبول کرنا۔

عملی مثال

عمر نے ایک گھڑی خریدی اور یہ طے پایا کہ اسے تین دن کا خیارِ شرط حاصل ہوگا، یعنی تین دن کے اندر وہ چاہے تو بیع کو باقی رکھے یا فسخ کر دے۔ دوسرے دن عمر نے دکاندار سے کہا: "میں نے گھڑی کو پسند کر لیا ہے، میں اس بیع کو نافذ کرتا ہوں۔"

(2)دلالۃً

کوئی ایسا عمل کرنا جو بیع کو قبول کرنے پر دلالت کرے۔

عملی مثال

آصف نے ایک موٹر سائیکل خریدی اور بیچنے والے سے تین دن کا خیارِ شرط لیا۔ اگلے دن آصف نے بغیر کچھ کہے اس موٹر سائیکل کو اپنے نام پر رجسٹر کروا لیا، اس کا انجن آئل بدلوایا اور اس پر سواری بھی کی۔ یہ افعال (رجسٹریشن، مرمت، استعمال) اِس چیز دلالت کرتے ہیں کہ وہ بیع پر راضی ہے۔

(2)ضروری

(اِس کی تین صورتیں ہیں۔)

(1)

مدتِ خیار کا گزر جانا

عملی مثال

زید نے بکر سے کہا: "میں یہ کپڑے خریدتا ہوں، لیکن مجھے تین دن کا خیار چاہیے، تاکہ سوچ کر فیصلہ کر سکوں۔"بکر نے قبول کر لیا۔ اگر تین دن گزر گئے اور زید نے کوئی فسخ یا رد نہیں کیا، تو خیارِ شرط ساقط ہو گیا اور اب بیع لازم ہو گئی۔اب وہ کپڑے واپس نہیں کر سکتا۔

(2)

فروخت کنندہ (بائع) کا خیار کی مدت میں انتقال کر جانا

عملی مثال

زید نے بکر سے ایک زمین خریدی اور کہا: "مجھے دو دن کا خیار دو۔" بکر نے قبول کیا، لیکن خیار کی مدت ختم ہونے سے پہلے بکر کا انتقال ہو گیا۔اب بیع لازم ہو گئی، خیار ساقط ہو گیا، زید اب بیع کو فسخ نہیں کر سکتا۔

(3)

إجازة أحد الشريكين

عملی مثال

زید اور خالد دونوں نے مشترکہ طور پر ایک گاڑی بکر کو بیچی اور کہا: "ہم دونوں تین دن کے لیے خیارِ شرط رکھتے ہیں۔"اگر زید نے دوسرے دن کہہ دیا: "میں نے بیع کو قبول کیا، مجھے اعتراض نہیں" تو اب امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مطابق خالد بھی بیع کو فسخ نہیں کر سکتا، کیونکہ ایک کی اجازت سے دوسرے کا خیار ساقط ہو گیا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

يلزم البيع نوعان في الأصل: أحدهما: اختياري، و الآخر ضروري أما الاختياري، فالإجازة؛۔۔۔ و الإجازة نوعان: صريح۔۔۔ و دلالة۔۔۔ (و أما) الضروري، فثلاثة أشياء (أحدهما) مضي مدة الخيار؛ لأن الخيار مؤقت به،۔۔۔ و الثاني موت البائع في مدة الخيار عندنا، ۔۔ ۔۔(و الثالث) إجازة أحد الشريكين عند أبي حنيفة رحمه اللہ بأن تبايعا على أنهما بالخيار، فأجاز أحدهما بطل الخيار، و لزم البيع عنده حتى لا يملك صاحبه الفسخ۔

اوپر جدول سے ترجمہ واضح ہے۔(بدا ئع الصنائع، جلد 05، صفحہ 267، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

یہی اسبابِ سقوط اِس مقام پر بھی موجود ہیں۔ (الفقہ الاسلامی و أدلتہ، جلد 04، صفحۃ 3114، مطبوعۃ دار الفکر)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-9342

تاریخ اجراء: 26 ذو القعدۃ الحرام 1446 ھ / 24 مئی 2025 ء