
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ خرید و فروخت (بیع و شراء) کے معاملات میں ”خیارِ تعیین“ سے کیا مراد ہے؟ اِس کی تعریف کیا ہے؟ اِس کی مدت کتنی ہوتی ہے؟ اور کن وجوہات یا اسباب کی بنیاد پر یہ خیار ختم یا ساقط ہو جاتا ہے؟ اور اس کی کوئی عملی مثال بھی بیان فرمائیں۔
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اگر کوئی شخص دو یا تین چیزوں میں سے کسی ایک چیز کو خریدنا چاہے اور یوں کہے کہ میں اِن تینوں چیزوں میں سے ایک کو خریدتا ہوں اور مجھے تین دن کا اختیار ہے، میں تین دنوں کے اندر کسی ایک چیز کو متعین کر لوں گا۔ اِس مہلت کو خیارِ تعیین کہا جاتا ہے۔ مثلاً منڈی میں ایک شخص نے گاہک کو تین بکرے دکھائے اور تینوں کی قیمتیں بھی واضح طور پر بیان کر دیں۔ خریدار نے مالک سے کہا کہ میں اِن میں سے ایک خریدتا ہوں، مگر وہ کون سا ہے،یہ دو دن کے اندر بتا دوں گا۔ اگر بائع اِس اختیار پر راضی ہو، تو خریدار کو خیارِ تعیین حاصل ہو جائے گا۔
"دُرَر الحکام" میں مثال کے ساتھ خیارِ تعیین کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا:
إيضاح خيار التعيين للمشتري: إذا قال البائع للمشتري أن هذه البغلة بألف قرش و تلك بثمانمائة و هذه بسبعمائة وقد بعتك بشرط أن تختار التي تريدها منها بثمنه المسمى في مدة ثلاثة أيام فقبل المشتري وكذلك إذا قال البائع بعتك إحدى هذه الثلاث بألف قرش على أن تختار منها أية شئت فقبل المشتري فالبيع صحيح و يكون خيار التعيين في ذلك للمشتري۔
ترجمہ: خریدار کے لیے ”خِیارِ تعیین“کی وضاحت یہ ہے کہ اگر بیچنے والا خریدار سے کہے: یہ خچر ایک ہزار قِرش میں، دوسرا آٹھ سو میں، اور تیسرا سات سو میں ہے اور میں نے تمہیں ان میں سے وہ چیز بیچی، جسے تم تین دن کے اندر منتخب کرو گے، تو خریدار نے اس شرط پر قبول کر لیا، تو بیع صحیح ہو گی۔اسی طرح اگر بیچنے والے نے کہا: میں نے تمہیں ان تین میں سے کوئی ایک چیز ایک ہزار قِرش میں بیچی، اس شرط پر کہ تم ان میں سے جس کو چاہو، منتخب کرو اور خریدار نے یہ قبول کر لیا، تو یہ بیع درست ہے، اور اس میں خیارِ تعیین خریدار کو حاصل ہو گا۔(درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام، جلد 1، صفحۃ 312،مطبوعہ دار الجیل)
”التعریفات الفقھیۃ“ میں خیارِ تعیین کی تعریف یہ ہے:
خِيار التعيين: هو أن يشتريَ أحد الشيئين على أنه يُعِّين أحدَهما أيما شاء۔
ترجمہ: خیارِ تعیین یہ ہے کہ خریدار دو (یا تین) چیزوں میں سے ایک کو اِس شرط پر خریدے کہ وہ ان میں سے جسے چاہے گا، خریدنےکے لیے متعین کر لے گا۔ (التعریفات الفقھیۃ، الصفحۃ 90، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
خیارِ تعیین کی مدت:
اس کی مدت تین دن ہے۔”فتح القدیر“ میں ہے:
لا بد من توقيت خيار التعيين بالثلاثة عند أبي حنيفة كما في خيار الشرط۔
ترجمہ: امام اعظم رحمہ اللہ کے نزدیک خیارِ تعیین کو تین دن سے مؤقت کرنا ضروری ہے، جیسا کہ خیارِ شرط تین دن سے مؤقت ہے۔ (فتح القدیر، جلد 06، صفحہ 302، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
خیارِ تعیین تین یا تین سے کم چیزوں میں ہو سکتا ہے، تین سے زیادہ چیزوں میں خیارِ تعیین نہیں لیا جا سکتا، چنانچہ ”درر الحکام“ میں ہے:
لا يصح خيار التعيين في أكثر من ثلاثة أموال. لا يكون صحيحا في أربعة أو خمسة أو أكثر۔
ترجمہ: تین سے زیادہ چیزوں میں خیارِ تعیین صحیح نہیں ہوتا۔ یعنی چار، پانچ یا اس سے زیادہ چیزوں میں یہ خیار درست نہیں ہوتا۔ (درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام، جلد 1، صفحۃ 312،مطبوعہ دار الجیل)
نیز یہ خیار ”قیمی“ چیزوں میں حاصل ہوتا ہے، ”مثلی“ میں نہیں، چنانچہ ”در المختار“ میں ہے:
صح خیار التعیین فی القیمیات لا فی المثلیات۔
ترجمہ: خیارِ تعیین قیمی چیزوں میں صحیح ہوتا ہے، مثلی چیزوں میں صحیح نہیں ہوتا۔ (در مختار مع ردالمحتار، جلد 14، صفحہ 318، مطبوعہ دار الثقافۃ و التراث، دمشق)
اسباب ِسقوط:
یہ خیار تین طرح ساقط ہو جاتا ہے۔
(1)صراحتاً |
وضاحت |
خریدار خود واضح الفاظ میں ایک چیز کو منتخب کر لے اور باقی سے دست بردار ہو جائے۔ |
عملی مثال |
زید نے بکر سے کہا: "میں تم سے یا تو یہ سیاہ گھوڑا خریدوں گا یا سفید گھوڑا، مجھے دو دن سوچنے دو۔" دو دن کے اندر زید نے بکر سے کہا: "میں نے سیاہ گھوڑا پسند کیا ہے، وہی خریدتا ہوں۔" یہ کہنے سے خیارِ تعیین صراحتاً ختم ہو گیا اور اب صرف سیاہ گھوڑا بطورِ مبیع متعین ہو گیا۔ ”دُرَر الحکام“ میں ہے: الاختياري إما أن يكون تصريحا كقول المشتري المخير قد اخترت هذا المبيع أو أردته أو رضيت به أو أجزته وبذلك يكون المشتري قد أسقط خياره صراحة۔ ترجمہ: تعیینِ اختیاری صریح طور پر یوں ہو گی کہ خریدار کہے: ”میں نے اِس چیز کو منتخب کیا“ یا”میں نے اِسے پسند کیا“یا ”میں اِس پر راضی ہوں“یا ”میں نے اِسے قبول کیا“۔ اس طرح خریدار نے واضح طور پر اپنا اختیار ساقط کردیا۔(درر الحکام، شرح مجلۃ الاحکام، جلد 1، صفحۃ 316،مطبوعہ دار الجیل) |
|
(2)دلالۃً |
وضاحت |
خریدار ایسا عمل کرے، جس سے یہ صاف ظاہر ہو کہ اس نے کسی ایک چیز کا انتخاب کر لیا ہے۔ |
عملی مثال |
پچھلی مثال میں زید نے کچھ نہ کہا، لیکن دو دن کے اندر وہ سیاہ گھوڑے کو اپنے گھر لے گیا، چارہ دیا، زین ڈالی اور اس پر سوار ہو کر استعمال کرنے لگا۔یہ سب کام اِس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اُس نے سیاہ گھوڑا منتخب کر لیا ہے، لہٰذا خیارِ تعیین دلالتاً ختم ہو گیا۔ ” دُرَر الحکام “ میں ہے: إذا تصرف المشتري في أحد الأموال المقبوضة تصرف المالك تعين المتصرف فيه مبيعا ولزم المشتري الثمن المسمى ويكون المال الآخر أو المالان أمانة في يده۔ ترجمہ: اگر خریدار مقبوضہ چیز میں مالک کی طرح تصرف کرے، تو جس چیز میں تصرف کیا گیا وہی بیچی ہوئی چیز متعین ہو جائے گی اور خریدار پر اس کی مقررہ قیمت لازم آ جائے گی۔ باقی چیز یا دونوں چیزیں خریدار کے ہاتھ میں بطور امانت ہوں گی۔ (درر الحکام، شرح مجلۃ الاحکام، جلد 1، صفحۃ 314،مطبوعہ دار الجیل) |
|
(3)حکماً |
وضاحت |
شریعت کی رو سے ایک چیز خود بخود مبيع متعین ہو جائے، مثلاً خریدار کے قبضے میں ایک چیز ہلاک ہو جائے۔ |
عملی مثال |
زید نے بکر سے دو مرغیاں خریدنے کا اختیار لیا اور کہا: "میں ان میں سے ایک خریدتا ہوں، لیکن اِن میں سے کونسی لوں گا، یہ فیصلہ کل کروں گا۔" بکر نے دونوں مرغیاں زید کو دے دیں۔ اگلے دن زید کے پاس ان میں سے ایک مرغی ہلاک ہو گئی ۔اب شرعی اعتبار سے یہی ہلاک ہوئی مرغی بطورِ مبیع متعین ہو گئی اور زید پر اس کی قیمت لازم ہوگی۔ دوسری مرغی اُس کے پاس امانت ہے، اسے واپس کرنا لازم ہے۔ یہ خیارِ تعیین کا حکماً ختم ہونا کہلاتا ہے۔ ” دُرَر الحکام “ میں ہے: إذا هلك أحد المبيعات في يد المشتري بعد القبض بلا تعد و لا تقصير أو تعيب خيار فيما إذا كان للمشتري خيار في تلك المبيعات فقد وقع التعيين ضروريا في ذلك المال۔ ترجمہ: اگر خریدار کے قبضے کے بعد بیچی گئی چیزوں میں سے کوئی ایک ہلاک ہو جائے اور یہ ہلاکت بغیر کسی زیادتی یا کوتاہی کے ہو اور خریدار کو ان چیزوں کے بارے میں خیارِ تعیین حاصل ہو، تو جس چیز کی ہلاکت ہوئی، وہی چیز لازمی طور پر بیع میں متعین ہو جائے گی۔ (درر الحکام، شرح مجلۃ الاحکام، جلد 1، صفحۃ 316،مطبوعہ دار الجیل) |
”الفقہ الاسلامی و أدلتہ“ میں ہے:
ينتهي خيار التعيين إما صراحة أو دلالة أو حكماً، كأن يقول: قبلت هذا الشيء دون غيره، أو تصرف في أحد الأشياء تصرفاً يدل على أنه اختاره. أو هلك أحد الأشياء في يد المشتري بعد القبض، فيتعين الهالك مبيعاً، وعليه ثمنه، و الآخر يكون أمانة في يده يجب رده إلى صاحبه۔
اوپر جدول سے ترجمہ واضح ہے۔ (الفقہ الاسلامی و أدلتہ، جلد 04، صفحۃ 3109، مطبوعۃ دار الفکر)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD-9341
تاریخ اجراء: 26 ذو القعدۃ الحرام 1446 ھ /4 2 مئی 2025 ء