مسجد میں خرید و فروخت کرنا منع ہے؟

مسجد میں خرید و فروخت کا حکم؟ کر لی، تو کیا کفارہ دینا ہوگا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ مسجد میں بیچی یا خریدی جانے والی شے لائے بغیر اگر خریدو فروخت کی جائے تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ اگر ناجائز ہو اور اس کے باوجود بھی کوئی مسجد میں سودا کرلے تو اس بیع کا کیا حکم ہے؟ اور کیا اس کی وجہ سے کوئی کفارہ ادا کرنا پڑے گا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

مسجد میں خرید و فروخت ناجائز و گناہ ہے، اگرچہ بیچی یا خریدی جانے والی شے مسجد میں نہ لائی جائے، بلکہ محض ایجاب و قبول (سودے کی پیشکش اور قبولیت) بھی ناجائز و گناہ ہے۔ اگر کوئی ممانعت کے باوجود مسجد میں سودا کر لے، تو شرعاً یہ بیع منعقد ہو جائے گی، لیکن چونکہ یہ عمل گناہ ہے، اس لیے اس سے توبہ کرنا لازم ہوگا، البتہ اس صورت میں کوئی خاص کفارہ ادا کرنا لازم نہیں۔

اس حکم سے صرف معتکف مستثنیٰ ہےاور وہ بھی صرف ایسی شے کی خریداری میں جس کی فی الحال اسے کھانے پینے وغیرہ کی ضرورت ہو، اس کے علاوہ معتکف کے لیے بھی مسجد میں بیع کرنا ناجائز ہے۔

احادیث سے ممانعت:

مسجد میں خریدو فروخت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا ہے، جیسا کہ سنن أبی داؤد، سنن النسائی، سنن ابن ماجہ، مسند احمداور سنن ترمذی میں ہے،

و النص للآخر:  عن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده عن رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم انه نهى عن تناشد الأشعار في المسجد و عن البيع و الاشتراء فيه

ترجمہ:عمرو بن شعیب اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسجد میں اشعار پڑھنے اور خرید و فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن ترمذی، ج 2، ص 602، رقم الحدیث 322، مطبوعہ بیروت)

اسی طرح ترمذی، سنن کبری للنسائی، مسند دارمی، صحیح ابن خزیمہ، مستدرک للحاکم، سنن الکبری للبیھقی وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إذا رأيتم من يبيع أو يبتاع في المسجد فقولوا: لا أربح اللہ تجارتك

ترجمہ: جب تم کسی کو مسجد میں خریدو فروخت کرتے دیکھو تو کہو ”اللہ تمہاری تجارت میں نفع نہ دے۔ “(السنن الکبری للنسائی، ج 9، ص 77، رقم الحدیث 9933، مؤسسة الرسالة، بيروت)

فقہی کتب سےممانعت:

محیط برہانی، تحفۃ الفقہاء، ہدایہ، بنایہ، مجمع الانہر، حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی اور در مختار میں ہے،

و النص للدر:  (و كره) أي تحريما لأنها محل إطلاقهم بحر (إحضار مبيع فيه) كما كره فيه مبايعة غير المعتكف مطلقا للنهي

ترجمہ: مسجد میں مبیع لانا مکروہ ہے، یعنی مکروہ تحریمی ہے کہ فقہاء کے اطلاق کا یہی محل ہے، جیسے غیر معتکف کا مسجد میں خریدو فروخت کرنا مطلقاً مکروہ ہے۔

(مطلقا) کے تحت رد المحتار میں ہے:

سواء احتاج إليه لنفسه أو عياله أو كان للتجارة أحضره أو لا كما يعلم مما قبله ومن الزيلعي و البحر

ترجمہ: یعنی اپنی ضرورت کی وجہ سے ہو خواہ گھر والوں کی یا تجارت کے لیے ہو، چاہے بیچنے کا سامان مسجد میں لایا ہو یا نہیں، جیسا کہ گزشتہ بیان سے، یونہی زیلعی اور بحر سے معلوم ہوا۔ (در مختار مع رد المحتار، ج 2، ص 449،دار الفکر)

بہار شریعت میں ہے: ”مسجد میں خریدو فروخت تو سخت گناہ ہے۔“ (بہار شریعت، ج 1، حصہ 4، ص 775، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

ممانعت کے باوجود بیع کا انعقاد:

اگر کوئی ممانعت کے باوجود مسجد میں بیع کر لے توبیع نافذ و صحیح ہوگی، شرح بلوغ المرام میں ہے:

و قال الماوردي: اختلفوا في جواز ذلك في المسجد مع اتفاقهم على صحة العقد لو وقع

ترجمہ: امام ماوردی نے کہا:فقہاء کا مسجد میں بیع کے متعلق اختلاف ہے، اس کے باوجود اگر عقد کرلیاجائے تو اس کی صحت پر سب متفق ہیں۔ (البدر التمام شرح بلوغ المرام، ج 2، ص 398، دار ھجر)

اور یہ ہمارے قواعد کے مطابق ہے کہ یہاں ممانعت نفسِ بیع کی وجہ سے نہیں بلکہ مسجد کے احترام کی وجہ سےہے اور ایسی صورت میں ممانعت کی وجہ سے اگر چہ بیع مکروہ اور اس کا ارتکاب گناہ ہو لیکن منعقد ہوجاتی ہے، فاسد نہیں ہوتی ،فتح القدیر میں ہے:

(فصل فيما يكره من البيوع) لما كان دون الفاسد أخّره عنه، و ليس المراد بكونه دونه في حكم المنع الشرعي بل في عدم فساد العقد، و إلا فهذه الكراهات كلها تحريمية لا نعلم خلافا في الاثم

ترجمہ: (مکروہ بیوع کی فصل) جب بیوع مکروہ بیوعِ فاسد سے کم درجہ تھیں تو انہیں بیوعِ فاسد کے بعد ذکر کیا، مکروہ بیوع کے کم درجہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ شرعی ممانعت کے حکم میں یہ کم ہیں، بلکہ ان میں عقد کے فاسد نہ ہونے کی وجہ سے یہ کم رتبہ ہیں، ورنہ یہ ساری بیوع مکروہ تحریمی ہیں، ان میں گناہ ہونے کے متعلق ہمارے علم میں کوئی اختلاف نہیں۔ (فتح القدیر، ج 6، ص 476، دار الفکر)

مسجد میں بیع کی نظیر جمعہ کی اذان کے وقت بیع ہے جس کی صحت و انعقاد کے متعلق بدائع میں ہے:

أمر بترك البيع عند النداء نهيا عن البيع لكن لغيره و هو ترك السعي فكان البيع في ذاته مشروعا جائزا لكنه يكره؛ لأنه اتصل به غير مشروع و هو ترك السعي

ترجمہ: شارع نے جمعہ کی اذان کے وقت بیع سے منع فرمایا ہے لیکن یہ ممانعت کسی اور وجہ یعنی سعی کو ترک کرنے کی وجہ سے ہے، تو بیع فی نفسہ مشروع ہے لیکن مکروہ ہے کہ اس سے ایک غیر مشروع یعنی سعی کا ترک ملا ہوا ہے۔ (البدائع الصنائع، ج 5، ص 232، دار الکتب العلمیۃ)

معتکف کے لیے استثناء اور شرائط:

امام اہل سنت لکھتے ہیں: ”مسجد میں کسی چیز کا مول لینا بیچنا خرید وفروخت کی گفتگو کرنا ناجائز ہے، مگر معتکف کو اپنی ضرورت کی چیز مول لینی وہ بھی جبکہ مبیع مسجد سے باہر ہی رہے مگر ایسی خفیف و نظیف وقلیل شے جس کے سبب نہ مسجد میں جگہ رکے نہ ا س کے ادب کے خلاف ہو اور اسی وقت اسے اپنے افطار یا سحری کے لئے درکار ہو،

استثنیتہ تفقھا لانہ ماذون لہ فی احضار ھذاقطعا و لا یؤمر بالخروج للاکل و الشرب

(ترجمہ:اس چیز کا استثناء میں نے بطور تفقہ کیا ہے،کیونکہ معتکف کو اس قسم کی اشیاء مسجد میں لانے کی قطعًا اجازت ہے اور اسے کھانے پینے کے لئے خروج کا حکم نہیں کیا جائے گا)اور تجارت کے لئے بیع وشرا کی معتکف کو بھی اجازت نہیں۔“ (فتاوٰی رضویہ، جلد 8، صفحہ 95، رضا فاونڈیشن لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: HAB-0563

تاریخ اجراء: 02 ذو القعدۃ 1446ھ / 30 اپریل 2025ء