مٹی ہے یا سونا ہے چیک کر لیں اس طرح کہ کر چیز بیچنا

مٹی ہے یا سونا ہے، اچھی طرح تسلی کر لیں، اس طرح چیز بیچنا کیسا ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ میرے پاس ایک گاڑی ہے، جس کو میں سیل کرنا چاہ رہا ہوں، تو کیا میرے لیے ضروری ہے کہ میں خریدار کو اس کے عیوب سے آگاہ کر دوں یا پھر محض اتنا کہہ سکتا ہوں کہ جو کچھ بھی ہے آپ کے سامنے ہے، مٹی ہے یا سونا، آپ ہی کا ہے۔ دیکھ کر خرید لیں ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

ایک مسلمان کی خیر خواہی کی نیت سے اگر آپ خریدار کو اس کے عیوب ظاہر کر کے بیچیں، تو اس میں اگرچہ ظاہری منافع کچھ کم ہوں، مگر اللہ پاک کی رضا و رحمت کی صورت میں بہت بڑی دولت ہاتھ آ سکتی ہے، البتہ اگر اس کے عیب ظاہر کرنے کی بجائے خریدار کو محض یوں بول دیا کہ یہ مٹی ہے یا سونا آپ ہی کا ہے، ا چھی طرح تسلی کر کے خرید لیں، تو اس سے خریدار کا خیارِ عیب ساقط ہو جائے گا اور اس کو واپسی کا اختیار نہیں رہے گا۔

مسلمان کی خیر خواہی کے متعلق حدیثِ پاک میں ہے:

”أن النبي صلي اللہ تعالي عليه وسلم قال: الدين النصيحة، قلنا: لمن؟ قال:  لله ولكتابه ولرسوله ولأئمة المسلمين وعامتهم“

  ترجمہ :  نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :  دین خیر خواہی ہے، ہم نے عرض کی :  کس کی خیر خواہی؟ تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :  اللہ، اس کے رسول، اَئمۂ مسلمین اور عام مسلمانوں کی۔ (صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 53، مطبوعہ دار الطباعۃ العامرہ، الترکیا )

اس حدیثِ پاک کی شرح میں حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں: ”عام مسلمانوں کی نصیحت یہ ہے کہ بقدر طاقت ان کی خدمت کرنا، ان سے دینی و دنیا مصیبتیں دورکرنا، ان سے محبت کرنا، ان میں علم دین پھیلانا، اعمال نیک کی رغبت دینا، جو چیز اپنے لیے پسند نہ کرے ان کے لیے پسند نہ کرنا یہ حدیث بہت ہی جامع ہے۔“ (مرآۃ المناجیح، جلد 6، صفحہ 437، مطبوعہ نعیمی کتب خانہ، گجرات )

ہر طرح کےعیوب سے براءت کے ساتھ بیع کرنا جائز ہے، چنانچہ مؤطا امام محمد میں ہے:

”قال محمد:  بلغنا عن زيد بن ثابت أنه قال: من باع غلاما بالبراءة فهو بريء من كل عيب، وكذلك باع عبد اللہ بن عمر بالبراءة، ورآها براءة جائزة“

 ترجمہ:  امامِ محمد رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ ہم تک حضرتِ زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ روایت پہنچی ہے کہ انہوں نے فرمایا: جس شخص نے براءت کی شرط پر غلام فروخت کیا، وہ ہر عیب سے بری ہے اور یونہی حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے براءت کے ذریعے بیع فرمائی اور آپ اس کو جائز براءت جانتے تھے۔ (مؤطا امام محمد، صفحہ 273، مطبوعہ المکتبۃ العلمیہ )

درر الحکام میں ہے:

”إذا قال البائع للمشتري حين إجراء البيع قد بعتك بغلتي هذه بألف قرش على أن أكون بريئا من دعوى العيب أو قال ذلك القول أو ما يفيده رجل آخر فاشتراها المشتري على هذا الشرط فالبيع صحيح“

  ترجمہ: خریدو فروخت کے وقت اگر بائع یعنی فروخت کنندہ نے خریدار سے کہا کہ میں اپنا یہ خچر ایک ہزار قرش کے عوض اس شرط پر بیچتا ہوں کہ میں دعویٔ عیب سے بری ہوں یا کسی دوسرے شخص نے یہی بات یا  اسی کی مثل  کوئی اور بات کہی اور مشتری نے اس شرط پر خرید لیا، تو یہ بیع صحیح ہے۔ (درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام، جلد 1، صفحۃ 348، مطبوعہ دار الجیل)

 فتاوی شامی میں ہے:

”صح البيع بشرط البراءة من كل عيب بأن قال بعتك هذا العبد على أني بريء من كل عيب“

 ترجمہ: تمام عیوب سے براءت کی شرط کے ساتھ بیع کرنا جائز ہے جیسے کہ کوئی شخص یوں کہہ دے کہ میں یہ غلام (یا کوئی بھی چیز ) اس شرط پر فروخت کرتا ہوں کہ میں اس کے ہر عیب سے بریٔ الذمہ ہوں۔  ) رد المحتار علی الدر المختار، جلد 5، صفحہ42، مطبوعہ مطبعۃ مصطفی، مصر (

اسی میں مزید ہے :

”ما تعورف في زماننا فيما إذا باع دارا مثلا فيقول بعتك هذه الدار على أنها كوم تراب ۔۔۔فهذا كله بمعنى البراءة من كل عيب“

ترجمہ: جو ہمارے زمانے میں متعارف ہے کہ جیسے مثال کے طور پر کوئی شخص گھر بیچے، تو یوں کہتا ہے کہ میں اس گھر کو  (آپ کے ہاتھ ) یوں بیچ رہا ہوں کہ گویا یہ مٹی کا ڈھیر ہے ۔۔۔ تو یہ سب(باتیں ) ہر طرح کے عیب سے براءت کے معنی میں ہیں ۔ (رد المحتار علی الدر المختار، جلد 5، صفحہ42، مطبوعہ مطبعۃ مصطفی، مصر )

بہار شریعت میں ہے: ”کوئی چیز بیع کی اور بائع نے کہدیا کہ میں ہر عیب سے بری الذمہ ہوں، یہ بیع صحیح ہے اور اس مبیع کے واپس کرنے کا حق باقی نہیں رہتا۔ یوہیں اگر بائع نے کہہ دیا کہ لینا ہو، تو لو اس میں سو طرح کے عیب ہیں یا یہ مٹی ہے یا اسے خوب دیکھ لو کیسی بھی ہو میں واپس نہیں کروں گا یہ عیب سے براء ت ہے۔ جب ہر عیب سے براء ت کرلے تو جو عیب وقت عقد موجود ہے یا عقد کے بعد قبضہ سے پہلے پیدا ہوا سب سے براءت ہوگئی۔“ (بہار شریعت، جلد2، حصہ 11، صفحہ688، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب : مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر : FSD-9485

تاریخ اجراء 04 ربیع الاول   1447 ھ/29 اگست 2025ء