مردار جانور بیچنا اور اس کا گوشت کھانا

مردار جانور بیچنے کا حکم

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

مری ہوئی بھینس کو فروخت کرنا کیسا ہے؟ اور کسی نے اگر اس کا گوشت کھا لیا تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

شرعی اعتبار سے جو جانور خود بخود طبعی موت مرجائے، وہ مردار ہوتا ہے اورمر دار کی خریدو فروخت باطل ہے کیونکہ بیع کا رکن یہ ہے کہ مال کا مال سے تبادلہ کیا جائے، جب کہ مردار مال نہیں ہے، تو یوں بیع کا رکن نہ پائے جانے کی وجہ سے مردار کی خرید وفروخت باطل ہے۔ لہذا مری ہوئی بھینس کو فروخت کرنا جائز نہیں۔ نیز جانتے بوجھتے، بغیرشرعی مجبوری کے مردار کا گوشت کھانا بھی حرام ہے۔ پس جس نے جانتے بوجھتے، بغیرشرعی مجبوری کےمردہ بھینس کا گوشت کھایا، وہ گنہگار ہے اور اس پر لازم ہے کہ اپنے اس گناہ سے سچی توبہ کرے۔

مردار حرام ہے اور اس سے نفع اٹھاناجائز نہیں،چنانچہ اللہ تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

(اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللّٰهِ)

ترجمہ کنز العرفان: اس نے تم پر صرف مردار اور خون اور سُور کا گوشت اور وہ جانور حرام کئے ہیں جس کے ذبح کے وقت غیرُ اللہ کا نام بلند کیا گیا۔ (القرآن، پارہ 2، سورۃ البقرۃ، آیت: 173)

مردار کی تعریف اور اس کے متعلق تفصیلی احکام بیا ن کرتے ہوئے مذکورہ آیت کے تحت امام ابو بکر احمد بن علی جَصَّاص رازی حنفی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات: 370ھ / 980ء) لکھتے ہیں:

الميتة في الشرع اسم للحيوان الميت غير المذكى، و قد يكون ميتة بأن يموت حتف أنفه من غير سبب لآدمي فيه۔۔۔ فإنه يتناول سائر وجوه المنافع، و لذلك قال أصحابنا: لا يجوز الانتفاع بالميتة على وجه و لا يطعمها الكلاب و الجوارح لأن ذلك ضرب من الانتفاع بها، و قد حرم اللہ الميتة تحريما مطلقا

ترجمہ: شرعاً  الميتة! اس مردہ حیوان کا نام ہے جس کو شرعی طریقے سے ذبح نہ کیا گیا ہو اور اس کو بھی مردار کہا جاتا ہے کہ جو آدمی کے کسی سبب کے بغیر طبعی موت مرجائے۔ پس یہ (حرمت) مردار سےمنافع حاصل کرنے کی تما م صورتوں کو شامل ہے، اسی وجہ سے ہمارے اصحاب نے فرمایا کہ مردار سے کسی بھی صورت میں نفع حاصل کرنا جائز نہیں اور اسے کتے اور دیگر چیر پھاڑ کرنے والے جانوروں کو کھلانا بھی جائز نہیں، کیونکہ اس عمل میں مردار سے نفع حاصل کرنا ہے، حالانکہ اللہ تعالی نے مردار کو مطلقا حرام قرار دیا ہے۔ (احکام القرآن للجصاص، جلد 1، صفحہ 130، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

مردار کھانے کی حرمت کی متعلق تفسیرات احمدیہ میں ہے

فالمیتۃ ما مات من المحللات بغیر ذبح۔۔۔ انما یحرم منہا اکلھا

ترجمہ: جو حلال جانور بغیر ذبح کئے مرجائے تو وہ مردار ہےا ور اس کا کھانا حرام ہے۔ (تفسیرات احمدیہ، صفحہ 44، مطبوعہ کراچی)

مردا ر کی خرید وفروخت با طل ہے ،جیساکہ علامہ بُر ہانُ الدین مَرْغِینانی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات: 593ھ / 1196ء) لکھتے ہیں:

البيع بالميتة و الدم باطل۔۔۔لانعدام رکن البیع، و ھو مبادلۃ المال بالمال، فان ھذہ الاشیاء لا تعد مالا عند احد

ترجمہ: مردار اور خون کی بیع باطل ہے، بیع کے رکن کے نہ پائے جانے کی وجہ سے، اور وہ رکن مال کا مال سے تبادلہ ہے، کیونکہ کسی (امام) کے نزدیک ان اشیا کو مال شمار نہیں کیا جاتا۔ (الھدایۃ، جلد 3، صفحہ 42، دار احياء التراث العربی، بيروت)

تبیین الحقائق میں ہے

و الاصل فیہ ان بیع ما لیس بمال عند احد کالحر و الدم و المیتۃ۔۔۔ باطل

ترجمہ: اس باب میں اصول یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو کسی کے نزدیک مال نہیں اس کی بیع باطل ہے، جیسے آزاد، خون اور مردار کی بیع۔ (تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، جلد 4، صفحہ 44، دار الكتب الاسلامی، بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا احمد سلیم عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-4082

تاریخ اجراء: 04 صفر المظفر 1447ھ / 30 جولائی 2025ء