ناپاک دودھ یا تیل بیچنے کا شرعی حکم

ناپاک دودھ یا تیل بیچنا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہماری دودھ کی دکان ہے، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دودھ میں کوئی ناپاک چیز گرجاتی ہے اور دودھ ناپاک ہوجاتا ہے۔ یہ ارشاد فرمائیں کہ وہ ناپاک دودھ گاہک کو بیچنا کیسا ہے؟ یہ مسئلہ بسا اوقات پرچون والوں کو بھی پیش آتا ہے کہ ان کے تیل وغیرہ میں بھی چوہا مر جاتا ہے لہٰذا دونوں کے متعلق بیان فرمادیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں ناپاک دودھ یا ناپاک تیل بیچنا جائز نہیں کیونکہ عموماً لوگ کھانے پینے میں استعمال کرنے کے لئے ہی دودھ یا تیل خریدتے ہیں نیز دودھ یا تیل کا ناپاک ہونا عیب ہے اورعیب دار چیز عیب بتائے بغیر بیچنا جائز نہیں۔ ہاں اگر خریدار کو اس کا ناپاک ہونا بتاکر بیچیں تاکہ خریدار ناپاک دودھ یا تیل کو جائز طریقے سےاستعمال کرے تو پھر بیچنا، جائز ہے۔

حضرت سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :

"المسلم اخو المسلم و لا يحل لمسلم باع من اخيه بيعا فيه عيب الا بينه له"

یعنی مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں لہٰذا کسی مسلمان کو یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی کوعیب دار چیزکا عیب بتائے بغیر بیچے، ہاں عیب بتا کر بیچنا جائز ہے۔ (ابن ماجہ، ص162)

صدر الشریعہ بدرالطریقہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: ’’تیل ناپاک ہوگیا اس کی بیع جائز ہے اور کھانے کے علاوہ اس کو دوسرے کام میں لانا بھی جائز ہے، مگر یہ ضرور ہے کہ مشتری کو اس کے نجس ہونےکی اطلاع دے دے تاکہ وہ کھانے کے کام میں نہ لائے اور یہ بھی وجہ ہے کہ نجاست عیب ہے اور عیب پر مطلع کرنا ضرور ہے۔ “ (بہارِ شریعت، 2 / 707)

ایک مقام پر لکھتے ہیں: ’’مبیع میں عیب ہو تو اس کا ظاہر کردینا بائع پر واجب ہے، چھپانا حرام و گناہِ کبیرہ ہے۔ “ (بہارِ شریعت، 2 / 673)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری

تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضان مدینہ رمضان المبارک 1442ھ مئی