آن لائن شاپنگ پر ملنے والے ڈسکاؤنٹ کا حکم

آن لائن خریداری پر ملنے والے ڈسکاؤنٹ کوپن ( Coupon) کی شرعی حیثیت اور متعلقہ مسائل

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ آج کل مختلف آن لائن پلیٹ فارمز )جیسے دراز  Daraz، ٹیمو Temu وغیرہ(پر شاپنگ کرنے کی صورت میں مختلف اوقات میں مختلف اقسام کے ڈِسکاؤنٹ کوپنز (Coupons) ملتے ہیں ۔ کوپن کی ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ آن لائن پلیٹ فارم کی طرف سے آفرہوتی ہے اگر آپ ہمارے پلیٹ فارم سے ایک مخصوص رقم تک کی خریداری کرتے ہیں، تو آپ کو ایک مقررہ رقم کا کوپن ملے گا ،جس سے آپ اگلی خریداری پر ڈسکاؤنٹ حاصل کرسکتے ہیں ، کوپن کی ایکسپائری ڈیٹ سے پہلے اگر تین دن کے اندر اندرہم سے دوبارہ کوئی خریداری کریں گے، تو اس کوپن پر لکھا ہوا کوڈ استعمال کرنے پر آپ کو اس خریداری پر ڈسکاؤنٹ مل جائے گا۔کوپن کی ایکسپائری ڈیٹ کبھی تین دن اور کبھی ایک ہفتہ بھی ہوتی ہے۔

میرا سوال یہ ہے کہ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ میری فیملی میں سے کوئی فرد مجھے کہتا ہے کہ آپ مجھے فلاں چیز فلاں آن لائن پلیٹ فارم سے منگوادیں، میں قیمت دیکھ کر اسےبتا دیتا ہوں کہ یہ چیز اتنے یورو کی مل رہی ہے۔ مثال کے طور پر اس چیز کی قیمت 30 یورو ہے ،تو جب میں وہ چیز 30 یورو کی خریدتا ہوں، تو اس خریداری پر کمپنی 10 یورو کا کوپن دیتی ہے۔اس کوپن کو میں رکھ لیتا ہوں اور پھر جب اپنی کوئی چیز خریدتا ہوں ،تو اس کوپن سےاس چیز کی قیمت پر ڈسکاؤنٹ حاصل کرلیتا ہوں۔میرا سوال یہ ہے کہ آیا یہ کوپن جوکہ میری آئی ڈی پر دیا جاتا ہے، میرا اسے اپنے لیے استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

صورتِ مسئولہ میں کسی ددسرے شخص کے لئے چیز خریدنے پر جو کوپن (Coupon) آپ کو ملتا ہے، آپ کا اُسے بعد میں اگلی خریداری کے وقت اپنے لئے استعمال کرنا اور ڈسکاؤنٹ حاصل کرنا، جائز ہے۔

اس جواب کو سمجھنے کے لئے ہم درج ذیل امور پر الگ الگ تفصیل سے بات کرتے ہیں:

1)خریداری پر کوپن کا ملنا۔

2)اس کوپن کی وجہ سے اگلی خریداری پر ڈسکاؤنٹ کا ملنا۔

3) کوپن کا حق دارکون ؟

1.خریداری پر ملنے والے کوپن کاشرعی حکم:

آن لائن پلیٹ فارم کی طرف سے ایک آفر یہ ہوتی ہے کہ اگر کوئی شخص ایک مخصوص رقم تک خریداری کرتا ہے، تو اسے ایک کوپن ملتا ہے۔کوپن ایک طرح کی ڈیجیٹل رسید ہوتی ہے، جس پر ملنے والے ڈسکاؤنٹ کی رقم اور ایک کوڈ لکھا ہوتا ہے ۔ کوپن کی ایکسپائری ڈیٹ سے پہلے اس آن لائن پلیٹ فارم سے دوبارہ خریداری کرنے پر اس کوڈ کو استعمال کرنےسے ڈِسکاؤنٹ مل جاتا ہے۔ چونکہ عقود میں الفاظ کی بجائے معانی کا اعتبار ہوتا ہے، تو اس کوپن کی حقیقت یہ ہے کہ پہلی خریداری کرتے وقت کمپنی کی جانب سے گویا یہ کہا جاتا ہے کہ جب آپ اگلی مرتبہ(عموماً 72گھنٹوں کے اندر اندر) ہم سے کوئی چیز خریدیں گے ، تو ہم آپ کو اس اگلی خریداری پر ڈسکاؤنٹ دیں گے۔ شرعی طور پر یہ معاملہ جائز ہے اورصرف اتنی با ت شرط کی حیثیت نہیں رکھتی ہے کہ اسے شرطِ فاسد قرار دے کر عقد کو فاسد کہا جائے، بلکہ یہ کمپنی کی طرف سے یکطرفہ وعدہ ہےاور وعدہ اگرچہ عقد کے تقاضے کے خلاف ہو، عقدِ بیع اس سے فاسد نہیں ہوتا، لہٰذا اس وعدہ کے باجود یہ عقد شرعاً جائز ہی رہے گا۔

عقود میں معانی کا اعتبار ہوتا ہے ، الفاظ کا نہیں۔جیسا کہ بدائع الصنائع میں ہے:

أن ‌العبرة فی العقود لمعانيها لا عين الألفاظ

 ترجمہ: عقود میں ان کے معانی کا اعتبار ہوتا ہے نہ کہ عین الفاظ کا۔(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، فصل في بيان شرائط، ج 7، ص512، مطبوعہ کوئٹہ)

عقد کے تقاضے کے خلاف امر کا ذکر کرنا اس وقت مفسد ِعقد ہے، جبکہ اسے بطور شرط بیان کیا جائے اور اگر بطور وعدہ ذکر کیا جائے، تو مُفسدِ عقد نہیں۔ چنانچہ البحر الرائق میں ہے:

”وقید باخراج ماذکر مخرج الشرط؛ لانہ لو اخرج مخرج الوعد ،لم یفسد، کما اذا باع بستانا علی ان یعمرہ حوائطہ، و اخرجہ مخرج الوعد، ولکن لو لم یبن البائع، لم یجبر

ترجمہ: بیع کے فساد کو بطور شرط ذکر کرنے کے ساتھ خاص کیا؛ کیونکہ اگر اسے بطور وعدہ ذکر کیاتو بیع فاسد نہیں ہوگی،جیسا کہ کسی نے باغ بیچا اور ساتھ کہا کہ اس کی دیواریں میں بنا دوں گا اور اسے بطور وعدہ ذکر کیا (تو بیع فاسد نہیں ہوگی)، لیکن اگر بائع دیواریں نہ بنائے، تواسے مجبور نہیں کیا جائے گا ۔ (البحر الرائق، جلد06، صفحہ 142، 143، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے :

”إذا كان الشرط فاسدا، يفسد العقد لحاقه إلا  أنه إذا خرج مخرج الوعد (ولنسمه شرطا وعديا) لا يفسده، بل لا بأس حينئذ بأن يكون في صلب العقد“

 ترجمہ:اگر شرط فاسد ہو تو وہ عقد کو فاسد کر دیتی ہے کہ وہ اس کے ساتھ لاحق ہوتی ہے، لیکن اگر وہ وعدے کے طور پر ہو (اور ہم اسے "وعدی شرط" کہیں) تو وہ عقد کو فاسد نہیں کرتی، بلکہ ایسی صورت میں اس کا صلب عقد میں ہونا بھی کوئی حرج کی بات نہیں۔(الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ ، جلد18، صفحہ217، وزارة الاوقاف والشئون الاسلامية، الکویت )

اسی طرح کے ایک مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے امام اہلسنت ، امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات/ 1340ھ) فرماتے ہیں :

”انہ لیس بشرط رأسا، بل وعد مستأنف، و قد قال فی ردالمحتار ذکر فی البحر انہ لو اخرجہ مخرج الوعد، لم یفسد، وصورتہ کما فی الولوالجیۃ قال: اشترحتی ابنی الحوائط اھ، قلت والذی فی الھندیۃ عن الظھیریۃ اشتر بصیغۃ الامر، فاذا کان ھذا فی الوعد المقارن، فکیف فی المفارق؟! فھذا یوجب الصحۃ اجماعا“

 (یعنی: یہ سرے سے شرط ہی نہیں ہے، بلکہ ایک جداگانہ وعدہ ہے۔ ردالمحتار میں بحوالہ بحر فرمایاکہ اگر اس نے بطور  ِوعدہ اس کو ذکر کیا،تو بیع فاسد نہ ہوگی اور اس کی صورت جیسا کہ ولوالجیہ میں یوں ہے کہ بائع نے کہا تو (باغ) خریدلے میں (باغ کی) دیواریں بنادوں گا۔ میں کہتاہوں کہ ہندیہ میں بحوالہ ظہیریہ امر کے صیغہ کے ساتھ ہے یعنی"اشتر" (توخرید) تو مذکورہ جزئیہ میں جب نفسِ عقد میں ذکر کیے جانے والے وعدے کے بارے میں(عدمِ فساد کا حکم ) ہے، تو وعدۂ مفارق کی صورت میں (فساد) کیسےہو سکتا ہے؟بلکہ یہ تو بالاجماع صحت ِبیع کو لازم کرتا ہے)۔“(فتاوی رضویہ، جلد 17، صفحہ 590، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

2. کوپن کی بنیاد پرملنے والے ڈسکاؤنٹ کا حکم:

دوسرا معاملہ اگلی خریداری کرنے پر ڈسکاؤنٹ کا ملنا ہے۔ آن لائن پلیٹ فارم پر ملنے والے اس ڈسکاؤنٹ کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اس پلیٹ فارم کی ایپ/ویب سائٹ پر مختلف اشیاء ڈسپلے ہو رہی ہوتی ہیں اورساتھ میں ان کی قیمت بھی لکھی ہوتی ہے۔خریداری کرنے والے شخص کوجو جو اشیاء لینی ہوتی ہیں وہ انہیں منتخب (select)کرلیتا ہے۔اگلے مرحلہ میں ان اشیاء کی ٹوٹل قیمت ظاہر ہوجا تی ہے، مثلاً اس شخص نے چھ اشیاء منتخب کیں، جن کی کل قیمت بارہ ہزار روپے بنی۔اب وہ شخص یہ قیمت ادا کرنے سے پہلے اپنے کوپن پر موجود کوڈ لکھتا ہے، تو ڈسکاؤنٹ کے بعد والی قیمت ظاہر ہوجاتی ہے۔ خریداری کرنے والا شخص یہ قیمت ادا کرکے اشیاء خریدلیتا ہے۔گویا یہاں عقد مکمل ہونے سے پہلے ہی بیچنے والے کی طرف سے چیز کا ریٹ کم کر دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے بائع(چیز بیچنے والا) جب اپنی چیز کم ریٹ کر کے بیچے تو ایسی خرید و فروخت میں کوئی حرج نہیں؛ کیونکہ ہر شخص کو اپنی چیز کم یا زیادہ ریٹ میں فروخت کرنے کا مکمل اختیار ہے، بشرطیکہ سودا باہمی رضامندی سے ہو اور اس میں کسی قسم کی کوئی خلافِ شرع بات نہ پائی جائے۔

مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”ہر شخص کو اختیار ہے کہ اپنی چیز کو کم یا زیادہ جس قیمت پر مناسب جانے بیع کرے، تھوڑا نفع لے یا زیادہ ، شرع سے اس کی ممانعت نہیں۔“(فتاوی امجدیہ، جلد 3، صفحہ 181، مکتبہ رضویہ ،کراچی)

 بلکہ شرعی طور پر تو عقد مکمل ہونے کے بعد بھی بائع کا ثمن (Price) کم کردینا جائز ہے۔ چنانچہ خلاصۃالدلائلمیں ہے:

و یجوز للبائع ان یزید فی المبیع، ویجوز ان یحط من الثمن

 ترجمہ:بائع کے لیے جائز ہے کہ وہ مبیع میں کچھ اضافہ کرے، اور یہ بھی جائز ہے کہ وہ اس کے ثمن میں کچھ کمی کر دے۔ (خلاصۃالدلائل، کتاب البیوع، ج1، ص365، مطبوعہ مکۃالمکرمہ)

بائع کا بعض ثمن کو کم کرنا بھی جائزہے۔ مجمع الانہر فی شرح ملتقی الابحرمیں ہے:

”صح حط البائع بعض الثمن، ولو بعد ھلاک المبیع“

 ترجمہ:بائع کابعض ثمن کو کم کرنا، جائزہے، اگرچہ مبیع ہلاک ہوچکی ہو۔  ( مجمع الأنھر فی شرح ملتقی الأبحر،کتاب البیوع، ج2، ص81، دار إحیاء التراث العربی،بیروت)

مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی ”بہارشریعت“ میں ارشاد فرماتے ہیں:”ثمن میں بائع کمی کرسکتا ہے، مثلاً دس روپے میں ایک چیز بیع کی تھی مگر خود بائع کو خیال ہوا کہ مشتری پر اس کی گرانی ہوگی اور ثمن کم کردیا یہ ہوسکتا ہے، اس کے لیے مبیع کا باقی رہنا شرط نہیں، یہ کمی ثمن کے قبضہ کرنے کے بعد بھی ہوسکتی ہے۔“(بھارشریعت ،جلد2، حصہ 11، صفحہ751، مکتبۃ المدینہ، باب المدینہ، کراچی)

3.کوپن کا حق دارکون ؟

ہماری اوپر بیان کردہ تفصیل سے یہ بات واضح ہے کہ یہ کوپن ، مبیع (بیچی گئی چیز) کا حصہ یا جزو نہیں ہوتا، بلکہ در حقیقت یہ کوپن آن لائن پلیٹ فارم کی طرف سےآئندہ ہونے والی خریداری پر ڈسکاؤنٹ دینے کا وعدہ ہے اور کمپنی کی طرف سے یہ وعدہ اس اکاؤنٹ ہولڈر سے کیا جاتا ہے، جس کے ذریعے خریداری ہوتی ہےاور اس کا سبب اس کا خریداری کرنا ہوتا ہے۔کمپنی کو اس سے غرض نہیں ہوتی کہ وہ کس کے لئے خریداری کر رہا ہے ، لہٰذا اگر اکاؤنٹ ہولڈر نے کسی کے کہنے پر چیز خریدی اور اس پر کوپن ملا، تو یہ کوپن اسی اکاؤنٹ ہولڈر کا حق ہوگا،کیونکہ اسی کی خریداری اور اکاؤنٹ کی وجہ سے یہ ملا ہے۔

تو سوال میں بیان ذکر کردہ صورت میں آپ نے جو اپنے رشتہ دار کے لئے خریداری کی، اس خریداری میں تو کوئی ڈسکاؤنٹ نہیں ملا، بلکہ اس وجہ سے آپ کو کوپن ملا ہے، جو آپ اگلی خریداری کے لئے استعمال کر سکتے ہیں اور اگلی خریداری میں یہ ڈسکاؤنٹ لینا بھی آپ کے لئے جائز ہوگا۔

تنبیہ:

یاد رہے! اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے وکیل کی حیثیت سے اس کے لئے خریداری کرتا ہے اور اشیاء کی قیمت پر کوپن استعمال کرکے ڈسکاؤنٹ حاصل کرتا ہے، تو اس صورت میں وہ اپنے موکِل(یعنی:جس نے چیز خریدنے کو کہا،اس ) سے اتنے پیسوں کا ہی مطالبہ کرسکتا ہے، جتنے پیسے ڈسکاؤنٹ کے بعد اس نے ادا کیے،کیونکہ عقد سے پہلے ہی اگر ڈسکاؤنٹ لگایا گیا، تو یہ خریداری ہی کم قیمت پر ہوئی ،لہٰذا جتنے میں خریداری ہوئی اتنی رقم ہی مؤکل سے لینے کا حق ہوگا اور اگرایک قیمت پر عقد مکمل ہونے کے بعد بائع کی طرف سے قیمت کم کی گئی، تب بھی یہ کمی اصل عقد سے لاحق ہوتی ہے اور شرعاً یہ کمی مؤکِل کے حق میں ثابت ہوتی ہے، لہٰذا وکیل پر یہ کم کردہ رقم اپنے موکِل کو دینا لازم ہوتا ہے۔

بائع وکیل کے لئے ثمن میں جو کمی کرتا ہے، یہ کمی موکل کے لئے ہوتی ہے۔ فتاوی ہندیہ میں ہے:

”وإن حط البائع عن الوکیل بعض الثمن، فإنہ یحط عن المؤکل“

 ترجمہ: اوراگر بائع وکیل سے بعض ثمن کم کرے ،تو وہ ثمن مؤکل سے کم ہوجائے گا۔(الفتاوى الهنديہ، ج 3، ص588، مطبوعہ دارالفکر،بیروت)

دررالحکام شرح مجلۃ الاحکام میں اس کی علت بیان کرتے ہوئے لکھا:

أن ‌هبة ‌بعض ‌الثمن حط۔۔۔لأن الحط يلتحق بأصل البيع، وفي حط البعض يبقى البيع بالباقي، فيرجع به على موكله

 ترجمہ: قیمت کا کچھ حصہ ہبہ کرنا، حط ثمن (یعنی قیمت میں کمی) ہے کہ حط ثمن  اصل سے ملحق ہو جاتا ہے، تو قیمت میں کچھ کمی کرنے سےبیع باقی بچے ہوئے حصے پر باقی رہتی ہے، لہٰذا وکیل اسی بقیہ قیمت کے ساتھ موکل سے رجوع کرے گا۔ (درر الحكام فی شرح مجلة الاحكام،ج 3،ص602،دارالجیل،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب :   محمد ساجد عطاری

مصدق: مفتی  محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:   NRL- 0333

تاریخ اجراء: 12صفرالمظفر1447 ھ/07اگست2025ء