
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص نے ایمیزون سے ایک سوٹ خریدا ، مگر پیکج میں دو ایک جیسے سوٹ آگئے۔ اس نے ایمیزون کے کسٹمر چیٹ میں سیلر کو اطلاع دی کہ اس میں دو سوٹ ہیں جبکہ پیمنٹ صرف ایک کی ہوئی تھی۔ سیلر نے پوچھا کہ کیا اُسی پیکج میں دو تھے، اس شخص نے جواب دیا: ہاں اور یہ بھی پوچھا کہ اضافی سوٹ کو واپس کہاں میل کرنا ہے۔ اس کے بعد سیلر نے کوئی جواب نہیں دیا اور اس بات کو چار پانچ مہینے ہو گئے ہیں۔ اب جبکہ اس نے بیچنے والے کو اطلاع دے دی مگر بیچنے والے نے جواب نہیں دیا، اور چار پانچ مہینے گزر گئے، تو اب وہ شخص اس اضافی سوٹ کا کیا کرے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
صورتِ مسئولہ میں قرائن سے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ یہ اضافی سوٹ بیچنے والے کی طرف سے محض غلطی سے بھیجا گیا ہے، کیونکہ اگر یہ بیچنے والے کی طرف سے کسی ڈیل، آفر یا تحفے کا حصہ ہوتا تو خریدار کی اطلاع دینے پر بیچنے والا فوراً اس بات کو واضح کر دیتا، جبکہ یہاں ایسا نہیں ہوا، لہٰذا یہ اضافی سوٹ خریدار کے ہاتھ میں امانت ہوگا، سوٹ کے مالک کی طرف سے ہبہ (تحفہ) کردینے، یا خریدار کے اس کو خرید لینے کے بغیر اس میں کوئی تصرف جائز نہیں ہوگا۔ نیز خریدار کا صرف ایک بار اطلاع دینا اور اس کے بعد بیچنے والے کا خاموش رہنا، اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ اضافی سوٹ واپس لینے کا ارادہ نہیں رکھتا، کیونکہ آن لائن کاروبار میں روزانہ ہزاروں آرڈرز ہوتے ہیں اور مختلف صارفین سے چیٹ پر بات چیت ہوتی رہتی ہے، اس میں بسا اوقات پہلی اطلاع نظرانداز ہو جاتی ہے یا مصروفیت کے باعث یاد نہیں رہتی۔
بہرحال خریدار پر لازم ہے کہ سیلر سے دوبارہ رابطہ کر کے یاد دہانی کروائے اور اضافی سوٹ اُس کے حوالے کرنے کی کوشش کرے۔ فی زمانہ آن لائن شاپنگ میں واپسی کا عام طریقہ یہ ہے کہ خریدار اپنے اکاؤنٹ میں "Return or Replace Items" کے آپشن کے ذریعے ریٹرن ریکویسٹ جمع کروائے، پھر کمپنی کی جانب سے فراہم کردہ ریٹرن لیبل متعلقہ چیز پر چسپاں کر کے اسے قریبی کورئیر پوائنٹ پر جمع کرادے، یا اگر کمپنی سامان لینے کے لیے کورئیر بھیجے تو مقررہ وقت پر اُسے حوالہ کر دے۔بہرحال وہ اضافی سوٹ اس کے مالک کے حوالے ہی کرنا ہوگا، اگر خریدار بار بار رابطہ کرے اور اس کے باوجود سیلر کی طرف سے کوئی جواب بھی نہ آئے، تو جب تک سیلر رابطہ کرکے واپس نہ منگوالے، خریدار اُسے اپنے پاس محفوظ رکھے،اُسے صدقہ کرنے کی اجازت نہیں کہ امانت کا یہی حکم ہے۔ البتہ اگر اضافی سوٹ کے بارے میں سیلر ای میل یا چیٹ میں "Keep the item" لکھ کر یا کسی طرح خریدار کو وہ سوٹ گفٹ کردے، تو یہ شرعاً ہبہ ہوگا، یا اگر خریدار سیلر کو مزید رقم ادا کر کے وہ اضافی سوٹ بھی اس سے خرید لے تو ان صورتوں میں وہ سوٹ خریدار کی ملکیت ہو جائے گا اور تصرف جائز ہوگا۔
مبیع میں کچھ زائد ہوجائے تو وہ بائع کا ہی ہےکیونکہ بیع متعین مقدار پر واقع ہوتی ہے، چنانچہ بحر الرائق میں ہے:
و إن زاد شيء عليه فهو للبائع؛ لأن البيع وقع على مقدار معين
ترجمہ: اور اگر اس پر (مبیع پر) کچھ زیادہ ہو جائے تو وہ بیچنے والے کا ہے، کیونکہ بیع ایک متعین مقدار پر واقع ہوئی ہے۔ (بحر الرائق، جلد 5، صفحہ 311،دار الکتاب الاسلامی، بیروت)
دوسرے کی ملکیت میں اس کی اجازت کی بغیر تصرف جائز نہیں ہوتا یہاں تک کہ تصرف کے جائز ہونے کی دلیل پائی جائے، چنانچہ موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے:
أن التصرف في ملك الغير بغير إذنه لا يجوز، فيبقى الأصل على الحرمة حتى يرد دليل الحل
ترجمہ:دوسرے کی ملک میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف جائز نہیں ،لہذا اصل اپنی حرمت پر باقی رہے گی، یہاں تک کہ حلال ہونے پر کوئی دلیل پائی جائے۔ (موسوعہ فقھیہ کویتیہ، جلد 18، صفحہ 75، دار السلاسل، الكويت)
بائع نے غلطی سے مبیع کی مقدار سے زائد دیدیا، تو وہ زائد خریدار کے ہاتھ میں امانت ہوگی، جیسا کہ قرض خواہ کی طرف سے غلطی سے قرض سے زائد رقم دینے پر وہ مقروض کے پاس ودیعت (امانت) ہوتی ہے، چنانچہ بہار شریعت میں ہے:’’ ایک شخص سے پچاس روپے قرض مانگے اُس نے غلطی سے پچاس کی جگہ ساٹھ دیدیے۔۔۔ جو روپے اُس (قرض دینے والے) نے غلطی سے دیے وہ اس(قرض لینے والے ) کے پاس ودیعت ہیں‘‘۔ (بہار شریعت، جلد 3، حصہ 14، صفحہ 47، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
مالک نہ ملنے کی صورت میں امانت کو بحفاظت رکھنےکا حکم ہے، صدقہ نہیں کرسکتا، چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے:
غاب المودع ولا یدری حیاتہ و لا مماتہ یحفظھا ابدا حتی یعلم بموتہ و ورثتہ، کذا فی الوجیز للکردری و لایتصدق بھابخلاف اللقطۃ كذا في الفتاوى العتابية
ترجمہ: اگر امانت رکھنے والا غائب ہو جائے اور اس کی زندگی یا موت کا علم نہ ہو تو اس امانت کو ہمیشہ محفوظ رکھا جائے گا، یہاں تک کہ اس کی موت اور اس کے وارثوں کا علم ہو جائے۔ یہی حکم الوجیز للکردری میں ہے۔ اور اس امانت کو صدقہ نہ کیا جائے گا، برخلاف لقطہ کے۔ یہی حکم الفتاوی العتابیۃ میں ہے۔ (الفتاوی الھندیۃ، جلد 4، صفحہ 354،دار الکتب العلمیہ،بیروت)
ودیعت میں مالک معلوم ہوتا ہے تو حفاظت ہی کا حکم ہوگا،جبکہ لقطہ میں مالک کا علم نہیں ہوتا،اسی لئے مالک نہ ملنے پر صدقہ کا حکم ہے،چنانچہ مبسوط سرخسی میں ہے:
بخلاف اللقطة فإن مالكها غير معلوم عنده، فبعد التعريف: التصدق بها طريق لايصالها إليه، وهنا مالكها معلوم، فطريق إيصالها الحفظ إلى أن يحضر المالك، أو يتبين موته فيطلب وارثه ويدفعها إليه
ترجمہ: برخلاف لقطہ کے کیونکہ لقطہ کا مالک اس کے نزدیک معلوم نہیں، تو تشہیر کے بعد لقطہ کو صدقہ کرنا ہی مالک تک اس کو پہنچانے کا (واحد) راستہ ہے، جبکہ یہاں(ودیعت میں) مالک معلوم ہے، تو ودیعت کو مالک تک پہنچانے کا راستہ یہی ہے کہ اس کی حفاظت کی جائے یہاں تک کہ خود مالک حاضر ہوجائے یا اس کی موت واضح ہوجائے، تو اس کے وارث کو تلاش کیا جائے اور وہ ودیعت ان کو سپرد کردی جائے۔ (المبسوط للسرخسی، جلد 11، صفحہ 130، دار المعرفہ، بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FAM-852
تاریخ اجراء: 21 صفر المظفر 1447ھ / 16 اگست 2025ء