پاگل کتے کی خرید و فروخت کرنا کیسا؟

پاگل کتے کی خرید و فروخت کا حکم

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایسا کتا جو سدھانے کے قابل نہیں ہوتا اور غصے میں کسی کو بھی کاٹ لیتا ہے، ایسے کتے کی خرید وفروخت کا کیا حکم ہوگا؟ اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پاگل اورکاٹ کھانے والے کتے کی خرید فروخت کرنا شرعاً درست نہیں بلکہ ایسے وحشی، کاٹ کھانے اور نقصان پہنچانے والے کتے کو مارنے کاحکم دیاگیا ہے، جس طریقے سے کم سے کم تکلیف ہو، ایسے طریقے سے اسے مار دیا جائے مثلا اسے دوائی وغیرہ دے کر بے ہوش کر کے ذبح کردیا جائے۔

تفصیل: معلم و غیر معلم (یعنی سدھائے ہوئے اور غیر سدھائے ہوئے) دونوں طرح کے کتوں کی بیع درست ہے، لیکن جو سدھایا ہوا نہیں، اس کی بیع صحیح ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ سدھانے کے قابل ہو، لہذا کاٹنے والا، پاگل کتا، جو سدھانے کے قابل نہیں ہوتا، اس کی بیع جائز نہیں ہے۔

چنانچہ الاختیار لتعلیل المختار میں ہے

(و يجوز بيع الكلب و الفهد و السباع معلما كان أو غير معلم) لأنه حيوان منتفع به حراسة و اصطيادا فيجوز۔۔۔ و عن أبي يوسف أنه لا يجوز بيع الكلب العقور لأنه ممنوع عن إمساكه مأمور بقتله

ترجمہ: اور کتے، چیتے اور چیر پھاڑ کرنے والے جانور کی بیع جائز ہے، چاہے سدھائے ہوئے ہوں یا نہ ہو ں کیونکہ وہ ایسے حیوان ہیں جن سے سکیورٹی اور شکار کے لئے نفع لینا ممکن ہے، لہذا جائز ہے۔ جبکہ امام ابو یوسف علیہ الرحمہ سے مروی ہے کہ پاگل کاٹ کھانے والے کتے کی بیع جائز نہیں کیونکہ اس کو رکھنے سے منع کیا گیا ہے اور مارنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (الاختیار لتعلیل المختار، جلد 2، صفحہ 9، 10، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

اسی الدر المختار، النہر الفائق، البحر الرائق، فتاوی ہندیہ اور المبسوط وغیرہ کتبِ فقہیہ میں ہے:

(اللفظ للمبسوط) الصحيح من المذهب أن المعلم و غير المعلم إذا كان بحيث يقبل التعليم سواء في حكم البيع۔۔۔ فأما الذي لا يجوز بيعه العقور منه الذي لا يقبل التعليم؛ لأنه عين مؤذ غير منتفع به فلا يكون مالا متقوما كالذئب

ترجمہ: صحیح مذہب یہی ہے کہ معلم اور غیر معلم کتا جبکہ سدھانے کے قابل ہو تو دونوں بیع کے جواز میں برابر ہیں۔ بہرحال ایسا پاگل کاٹ کھانے والا کتا جو سدھانے کے قابل نہ ہو اس کی بیع جائز نہیں کیونکہ وہ نفع نہیں بلکہ اذیت دینےو الا ہے، لہذا بھیڑئے کی طرح وہ مال متقوم ہی نہیں۔ (المبسوط للسرخسی، جلد 11، صفحہ 235، دار المعرفۃ، بیروت)

بہار شریعت میں ہے ”کتا، بلی، ہاتھی، چیتا، باز، شکرا، بَہری، ان سب کی بیع جائز ہے۔ شکاری جانور معلّم (سکھائے ہوئے) ہوں یا غیر معلم دونو ں کی بیع صحیح ہے، مگر یہ ضرور ہے کہ قابل تعلیم ہوں، کٹکھنا کُتاجو قابل تعلیم نہیں ہے اُس کی بیع درست نہیں۔ (بہار شریعت، جلد 2، حصہ 11، صفحہ 809، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد حسان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4322

تاریخ اجراء: 19 ربیع الآخر 1447ھ / 13 اکتوبر 2025ء