نوٹوں والے ہار بنانا، بیچنا اور پہننا جائز نہیں؟

نوٹوں والا ہار پہننا، بنانا اور بیچنا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میری پھول وغیرہ بیچنے کی دُکان ہے، تو ہم پھولوں کے ہار بھی بیچتے ہیں اور نوٹوں، پیسوں والے ہار، جن میں دس، بیس ، پچاس سو والے نوٹ لگے ہوتے ہیں، اس طرح کے ہار بھی شادی بیاہ میں پہنے جاتے ہیں، تو اس حوالے سے ہماری رہنمائی فرما دیں کہ پیسوں والے ہار بنانا، بیچنا شرعاً جائز ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

شرعی حکم یہ ہے کہ پیسوں والا ہار گلے میں پہننا ناجائز و گناہ ہے، اس وجہ سے اس طرح کے ہار بنانا اور بیچنا بھی شرعاً ناجائز ہے۔

مسئلے کی تفصیل کے لیے یہ تمہید ذہن نشین کر لیجیے کہ جس طرح جاندار کی تصویر بنانا اور بنوانا، ناجائز و گناہ ہے، اسی طرح جاندار کی تصویر کی تعظیم کرنا یا اعزاز و اکرام والی جگہ پر رکھنا بھی ناجائز ہے اور نوٹوں میں بھی جاندار کی تصویر ہوتی ہے، جس کو گلے میں لٹکانا اگرچہ تصویر کی تعظیم کی نیت نہیں ہوتی ، لیکن یہ حاملِ صنم ( یعنی بُت اٹھانے والے) کے ساتھ مشابہت ہے اور تصویر کی تعظیم میں ہی شمار ہوتا ہے، جس وجہ سے فقہائے کرام نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ اگر پیسوں پر تصویر بنی ہو، تو وہ پیسے گلے میں نہیں لٹکا سکتے، لہٰذا تصویر کی تعظیم اور حاملِ صنم (بُت اٹھانے والے)  کی مشابہت کی وجہ سے نوٹوں اور پیسوں والے ہار گلے میں پہننا ناجائز و گناہ ہے۔

اور شریعتِ اسلامیہ کا یہ بنیادی اصول ہے کہ جس چیز کا استعمال جائز نہیں یا اس کا مقصودِ اعظم گناہ ہو ، تو اس چیز کا بنانا ، بیچنا بھی ناجائز و گناہ ہے، کیونکہ یہ گناہ پر مدد کرنا ہے، جبکہ ہمارا خوبصورت مذہبِ اسلام جس طرح گناہ سے روکتا ہے، اسی طرح گناہ پر مدد کرنے سے بھی روکتا ہے، اسی وجہ سے تصویر والے لباس ، سونے کی مَردانہ انگوٹھی بنانے اور بیچنے کو ناجائز قرار دیا گیا اور نوٹوں والے ہار کا اصل اور بنیادی مقصد بھی فقط گلے میں پہننا ہی ہوتا ہے، اس کے علاوہ اس کا کوئی اور مصرف نہیں ہوتا، تو یوں اس کا مقصودِ اعظم بھی فقط گلے میں پہننا متعین ہوا ، جو ناجائز و گناہ ہے، لہٰذا نوٹوں اور پیسوں والا ہار بنانا اور بیچنا بھی ناجائز و گناہ ہے۔

نوٹوں والا ہار پہننے کی ممانعت سے متعلق دلائل:

تصویربنانےپرعذاب کےمتعلق حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتےہیں:

سمعت النبي صلى اللہ عليه و سلم يقول ان اشدالناس عذاباعندالله يوم القيامة المصورون

 ترجمہ:میں نےنبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناکہ بےشک قیامت کےدن اللہ کےنزدیک سب سےزیادہ عذاب میں تصویر بنانے والے ہوں گے۔ (صحیح البخاری، کتاب اللباس، باب عذاب المصورین یوم القیامۃ،جلد 2، صفحہ 880،مطبوعہ کراچی)

جس کپڑے میں جاندار کی تصویر بنی ہو، وہ کپڑا پہننا بھی ناجائز و گناہ ہے، چنانچہ فقہ حنفی کی مشہور ”الھدایہ “ میں ہے:

و لو لبس ثوبا فيه تصاوير يكره لأنه يشبه حامل الصنم

ترجمہ: اگر ایسا کپڑا پہنا جس میں تصویر بنی ہو ، تو یہ مکروہ ہے، کیونکہ یہ حاملِ صنم ( بُت اٹھانے والے ) کے مشابہ ہے۔ (الھدایہ، جلد 1، صفحہ 65، مطبوعہ بیروت)

اور یہ حکم نماز و غیر نماز دونوں صورتوں میں ہے اور مکروہ سے مراد مکروہ تحریمی ہے ، چنانچہ بحر الرائق میں ہے:

(و لبس ثوب فيه تصاوير) لانه يشبه حامل الصنم فيكره. و في الخلاصة: و تكره التصاوير على الثوب صلى فيه أو لم يصل اه. وهذه الكراهة تحريميه 

ترجمہ: تصویر والا کپڑا پہننا مکروہ ہے، کیونکہ یہ بُت اٹھانے والے کے مشابہ ہے، خلاصۃ الفتاویٰ میں ہے کہ کپڑوں پر تصاویر بنانا مکروہ ہے، چاہے اس میں نماز پڑھی جائے یا نہ پڑھی جائے اور یہ کراہت تحریمی ہے۔ (البحر الرائق، جلد 2، صفحہ 29، مطبوعہ دار الکتاب الاسلامی، بیروت)

کپڑے کے علاوہ بھی کسی چیز میں تصویر بنی ہو تو یہی حکم ہے ، چنانچہ فتاویٰ قاضی خان میں ہے:

و يكره أن يلبس المسلم شيئا من السلاح فيه صورة إنسان أو طير

ترجمہ: مسلمان کے لیے مکروہ ہے کہ وہ ایسا اسلحہ لٹکائے ، جس میں انسان یا پرندے ( یعنی جاندار ) کی تصویر بنی ہو۔ (فتاویٰ قاضی خان، کتاب السیر، جلد 3، صفحہ 498، مطبوعہ کراچی)

گلے میں تصویر والے پیسے لٹکانے کی ممانعت سے متعلق خزانۃ الاکمل میں ہے:

و لا باس بحمل دراهم عليها تماثيل و يكره ان يعلق في الاعناق

ترجمہ: جن دراہم میں تصویر بنی ہو، ان کو اٹھانے میں حرج نہیں ہے، البتہ ان کو گردن میں لٹکانا مکروہ ہے۔ (خزانۃ الاکمل فی فروع الفقہ الحنفی، جلد 3، صفحہ 476، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

تصویر کی تعظیم کی نیت نہ بھی ہو، لیکن وہ فعل تعظیم والا ہو ، تو بھی ناجائز ہے، چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں: ”ترک اہانت بوجہ تصویرہی ہومگرتصویر کی خاص تعظیم مقصود نہ ہوجیسے جہال زینت وآرائش کے خیال سے دیواروں پرتصویریں لگاتے ہیں یہ حرام ہے اور مانع ملائکہ علیہم الصلوٰۃ والسلام کہ خود صورت ہی کااکرام مقصود ہوا اگرچہ اسے معظم وقابل احترام نہ مانا۔“ ( فتاویٰ رضویہ، جلد 24، صفحہ 640، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

روپے پیسوں والے ہار سے متعلق فتاویٰ فقیہ ملت میں ہے: ”روپیہ کا مالا پہنانا یہ بھی حرام ہے۔) فتاویٰ فقیہ ملت، جلد 2، صفحہ 341، شبیر برادرز، لاھور)

اسی طرح فتاویٰ تاج الشریعہ میں ہے: ”نوٹوں کا ہار ڈالنا شرعاً منع ہے، کیونکہ اس میں جاندار کی تصویر کی تعظیم ہوتی ہے۔ (فتاویٰ تاج الشریعہ، جلد 4، صفحہ 61، مطبوعہ اکبر بک سیلر ز، لاھور)

فتاویٰ مرکز تربیت افتاء میں ہے: ”نوٹوں کا ہار بھی ناجائز ہے کہ ہار صرف پھول ہی کا جائز ہے۔۔۔ نوٹوں کا ہار پہنانے کی رسم ناجائز ہے، اس لیے ان سے بچیں۔“ ( فتاویٰ مرکز تربیت افتاء، جلد 2، صفحہ 379، مطبوعہ فقیہ ملت اکیڈمی)

نوٹوں والا ہار بنانے اور بیچنے کی ممانعت سے متعلق دلائل:

گناہ پر مددنہ کرنے کے حوالے سے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے

﴿وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ- اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ(2)﴾

ترجمہ: اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو ، بے شک اللہ شدید عذاب دینے والا ہے۔ (پارہ 6، سورۃ المائدۃ، آیت 2)

اس آیت کی تفسیر میں امام ابو بکر احمد الجصاص رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

﴿وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ﴾نهي عن معاونة غيرنا على معاصي اللہ تعالى

ترجمہ: آیت کریمہ میں اللہ تعالی کی نافرمانی والے کاموں میں دوسرے کی مدد کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ (احکام القرآن، جلد 2، صفحہ 429، مطبوعہ کراچی)

مرد کے لیے لوہے تانبے وغیرہ کی پہننے کی حرمت ثابت کرنے کے بعد علامہ علاؤ الدین حصکفی رحمۃ اللہ علیہ اس کی بیع کا حکم بیان کرتے ہوئے در مختار میں فرماتے ہیں:

فاذا کراھۃ لبسھا للتختم ثبت کراھۃ بیعھا و صیغھا لما فیہ من الاعانۃ علی ما لا یجوز وکل ما ادی الی ما لا یجوز لا یجوز

ترجمہ: پس (سونے، لوہے، پیتل وغیرہ کی انگوٹھی کے متعلق ) جب ثابت ہو گیا کہ (مردوں کے لئے) اسے پہننا مکروہ (تحریمی) ہے، تو اسے بناناور بیع کرنا بھی مکروہ ہے، کیونکہ اس میں ایسے کام پر مدد ہے جو جائز نہیں اور ہر وہ کام جو ناجائز کی طرف لے جائے، وہ جائز نہیں ہوتا۔‘‘ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحظر والاباحۃ، جلد 9، صفحہ 595، مطبوعہ کوئٹہ)

جس چیز کا مقصودِ اعظم ہی گناہ کا حصول ہو، ایسی چیز بیچنے سے متعلق شیخ الاسلام و المسلمین امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ جد الممتار میں فرماتے ہیں:

ما کان مقصودہ الاعظم تحصیل معصیۃ معاذ اللہ تعالی کان شراؤہ دلیلا واضحا علی ذلک القصد فیکون بیعہ اعانۃ علی المعصیۃ

ترجمہ: جس چیز کا مقصودِ اعظم ہی گناہ کا حصول ہو ، معاذ اللہ تعالی! تو اس کا خریدنا گناہ کے قصد پر واضح دلیل ہے، تو اس چیز کا بیچنا گناہ پر مدد کرنا ہے۔ (جد الممتار، کتاب الحظر و الاباحۃ، جلد 7، صفحہ 76، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

اس حوالے سے آپ رحمۃ اللہ علیہ ایک اصول بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ”یہ اصل کلی یاد رکھنے کی ہے کہ بہت جگہ کام دے گی۔ جس چیز کا بنانا، ناجائز ہو گا، اسے خریدنا، کام میں لانا بھی ممنوع ہو گا اور جس کا خریدنا،کام میں لانا منع نہ ہو گا، اس کا بنانا بھی ناجائز نہ ہو گا۔ (فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 464، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

کپڑوں پر تصویر سے متعلق فتاویٰ رضویہ میں ہے: ”جاندار کی تصویر بنانا مطلقاً حرام ہے اور اس کی خریدوفروخت بھی جائزنہیں یہاں تک کہ علماء فرماتے ہیں: جوتصویر دارکپڑے بنائے بیچے، اس کی گواہی مردودہے۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد 24، صفحہ 560، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: ”تصویر جس کپڑے پرہو اس کاپہننا، پہنانا یابیچنا، خیرات کرنا سب ناجائزہے۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد 24، صفحہ 567، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

بیع اسی کی جائز ہے، جس کا استعمال جائز ہے ، چنانچہ فتاویٰ اجملیہ میں ہے: ”جوازِ بیع کا مدار شے کے مباح الانتفاع ہونے پر اور عدم جواز بیع کا حکم اس کے غیر مباح الانتفاع ہونے پر موقوف ہے۔“ (فتاوٰی اجملیہ، ج 03، ص 468، شبیر برادرز، لاھور)

مذکورہ بالا بحث اور تمام جزئیات سے ثابت ہوگیا کہ نوٹوں والا ہار پہننا ناجائز ہے، لہٰذا یہ ہار بنانا اور بیچنا بھی ناجائز و گناہ ہے، اس سے بچنا لازم ہے۔

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Aqs-2841

تاریخ اجراء: 13ربیع الثانی 1447ھ / 07 اکتوبر 2025ء