
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
اگر ہم کسی سے ادھار کپڑا خرید لیتے ہیں اور پھر آگے دکاندار کے علاوہ کسی اور کو بیچ دیتے ہیں اور جو نفع اس میں سے حاصل ہوتا ہے اس کو رکھ لیتے ہیں، باقی اصل رقم جو اس کپڑے کی ہوتی ہے، دکاندار کو دیتے ہیں، کیا ہمارا ایسا کرنا درست ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں آپ کا ادھار کپڑا خرید کر آگے کسی کو بیچنا اور اس سے حاصل ہونے والا نفع رکھ لینا اور باقی اصل رقم پہلے دکاندار کو دے دینا، جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں جبکہ کوئی دوسری شرعی خرابی نہ ہو۔
وجہ یہ ہے کہ جب پہلاایگریمنٹ مکمل ہوگیا، تو کپڑا آپ کی ملکیت میں آگیا اگرچہ آپ نے ابھی اس کی قیمت ادانہیں کی، لہذا جس طرح ادھارخریدنے کے بعداپنے استعمال میں لاسکتے ہیں، اسی طرح آگے بیچ بھی سکتے ہیں کہ اپنی ملکیت والی چیز میں ہر جائز تصرف کرنے کا انسان کو اختیار ہے اور پھر جب ادھار قیمت ادا کرنے کاوقت آئے گا تو اب وہ قیمت خواہ اس کپڑے کو بیچ کر حاصل ہونے والی قیمت سے اداکریں یا اپنی کسی اور رقم سے، دونوں صورتیں جائزو درست ہیں۔
ہدایہ میں ہے
إذا حصل الإيجاب و القبول لزم البيع و لا خيار لواحد منهما إلا من عيب أو عدم رؤية
ترجمہ: اور جب ایجاب و قبول ہوجائے تو بیع لازم ہوجاتی ہے اور بائع و مشتری میں سے کسی کو کسی قسم کا اختیار نہیں رہتا سوائے عیب یا مبیع کو نہ دیکھنے کی وجہ سے۔ (الھدایۃ، جلد 3، صفحہ 23، دار احياء التراث العربي، بیروت)
فتاوی رضویہ میں ہے ”ادائے ثمن شرائط صحت یا نفاذ بیع سے نہیں، ولہٰذا اگر بائع بعد تمامئ عقد زر ثمن تمام و کمال معاف کردے تو معاف ہوجائےگا اور بیع میں کوئی خلل نہ آئے گا۔“ (فتاوٰی رضویہ، جلد 17، صفحہ 118، رضا فاونڈیشن، لاہور)
اپنے مملوکہ اموال میں ہر طرح کا جائز تصرف روا ہونے کے متعلق امام فخرالدين زیلعی حنفی علیہ الرحمہ تبیین الحقائق میں لکھتے ہیں:
ثم اعلم أن للإنسان أن يتصرف في ملكه ما شاء من التصرفات ما لم يضر بغيره ضررا ظاهرا
ترجمہ: پھر جان لو کہ انسان کو یہ اختیار ہے کہ وہ اپنی ملک میں جو چاہے تصرف کرے جب تک کہ اس کا تصرف دوسرے کو واضح نقصان نہ پہنچائے۔ (تبیین الحقائق، جلد 4، صفحہ 196، دار الکتاب الاسلامی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد حسان عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4281
تاریخ اجراء: 06 ربیع الآخر 1447ھ / 30 ستمبر 2025ء