پلاٹ کی مکمل قیمت ادا کرنے سے پہلے آگے بیچنا

کیا مکمل قیمت ادا کرنے سے پہلے پلاٹ آگے بیچ کر نفع کمانا جائز ہے؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میں پراپرٹی کی خرید و فروخت کا کام کرتا ہوں۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی شخص سے پلاٹ خریدتا ہوں۔ خرید و فروخت مکمل ہوجانے پر مالک کو کچھ رقم ایڈوانس بھی دے دیتا ہوں، مکمل قیمت ادا نہیں کی ہوتی کہ وہ پلاٹ میں آگے بیچ دیتا ہوں اور وہاں سے مجھے اچھا خاصہ نفع ہوجاتا ہے۔ اِس نفع کے ساتھ پہلے والے مالک کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ میری خریداری والا معاملہ مکمل ہوچکا ہوتا ہے، جس کا باقاعدہ ایگریمنٹ بھی بنا ہوتا ہے اور پلاٹ آگے سیل کرنے سے اس کی طرف سے مجھے کوئی پابندی بھی نہیں ہوتی۔ مجھے صرف یہ معلوم کرنا ہے کہ اس پلاٹ کی رقم میں نے مکمل ادا نہیں کی ہوتی، میری بہت تھوڑی رقم لگی ہوتی ہے، تو یوں پوری پیمنٹ ادا کرنے سے پہلے وہ پلاٹ آگے بیچنا اور اس سے حاصل ہونے والا نفع میرے لیے جائز ہے یا نہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

جس طرح نقد کوئی چیز خریدنے سے بندہ اس چیز کا مالک بن جاتا ہے، اسی طرح ادھار پر چیز خریدنے سے بھی چیز کا مالک بن جاتا ہے اور اس چیز میں ان تمام تصرفات کا حق حاصل ہوجاتا ہے، جو نقد خریدی ہوئی چیز میں تصرفات کر سکتا ہے، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں اگرچہ آپ نے زمین کی قیمت مکمل ادا نہ کی ہو، لیکن عقدِ بیع (خرید و فروخت کا معاہدہ) اپنی شرائط کے ساتھ مکمل ہونے کی وجہ سے آپ اس زمین کے مالک ہوجاتے ہیں، اور اس میں ہر طرح کا تصرف کرنے کے بھی مالک ہوجاتے ہیں، خواہ خود رہائش کر لیں یا آگے بیچ دیں؛ آگے بیچنے کی صورت میں حاصل ہونے والا نفع بھی آپ کے لیے حلال و جائز ہے، اس میں کسی قسم کا حرج نہیں ہے۔

اُدھار خرید و فروخت سے متعلق دلائل:

نقد اور ادھار بیچنے کے متعلق کنز الدقائق میں ہے:

و صح بثمن حال و بأجل معلوم

ترجمہ: نقد اور ادھار قیمت کے ساتھ خرید و فروخت درست ہے، بشرطیکہ ادھار کی مدت معلوم ہو۔ (کنزا لدقائق، کتاب البیوع، صفحہ 228، مطبوعہ کراچی)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فتاویٰ امجدیہ میں فرماتے ہیں: ”بیع میں ثمن کا معین کرنا ضروری ہے۔ در مختار میں ہے:

”و شرطہ لصحتہ معرفۃ قدر مبیع و ثمن“

اور جب ثمن معین کر دیا جائے، تو بیع چاہے نقد ہو یا ادھار سب جائز ہے۔ اسی میں ہے:

”و صح بثمن حال و مؤجل الی معلوم“

اور یہ بھی ہر شخص کو اختیار ہے کہ اپنی چیز کو کم یا زیادہ، جس قیمت پر مناسب جانے، بیع کرے۔ تھوڑا نفع لے یا زیادہ، شرع سے اس کی ممانعت نہیں۔“ ( فتاویٰ امجدیہ، جلد 3، صفحہ 181، مکتبہ رضویہ، کراچی)

یہاں تک کہ بیع مکمل ہونے کے بعد پہلے والا شخص وہ پلاٹ آپ کو دینے سے روک بھی نہیں سکتا ، چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

للبائع حق حبس المبيع لاستيفاء الثمن إذا كان حالا كذا في المحيط و إن كان مؤجلا فليس للبائع أن يحبس المبيع قبل حلول الأجل و لا بعده كذا في المبسوط و لو كان بعض الثمن حالا و بعضه مؤجلا فله حبسه حتى يستوفي الحال

ترجمہ: جب خرید و فروخت نقد پر ہو، تو جب تک مکمل قیمت وصول نہیں ہوجاتی، بیچنے والا شخص بیچی گئی چیز کو اپنے پاس روک سکتا ہے، جیسا کہ محیط میں ہے اور اگر خرید و فروخت ادھار میں ہو، تو پھر ادھار کی اس مدت سے پہلے اور نہ ہی اس کے بعد چیز کو روک سکتا ہے۔ جیسا کہ مبسوط میں ہے اور اگر کچھ رقم نقد ہو، کچھ ادھار، تو جتنی قیمت نقد طے پائی ہے، اس کی وصولی تک روک سکتا ہے۔ (الفتاویٰ الھندیۃ، کتاب البیوع، الباب الرابع، الفصل الاول، جلد 3، صفحہ 15، مطبوعہ بیروت)

بیع سے ملکیت ثابت ہونے اور اس میں تصرف کے دلائل:

خرید و فروخت اپنی شرائط کے ساتھ مکمل ہوجائے ، تو خریدار چیز کا مالک ہوجاتا ہے، جیسا کہ درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

حكم البيع المنعقد الملكية يعني صيرورة المشتري مالكا للمبيع و البائع مالكا للثمن

ترجمہ: جو بیع منعقد ہوجاتی ہے، اس کا حکم یہ ہے کہ ملکیت ثابت ہوجاتی ہے یعنی خریدار بیچی گئی چیز کا مالک ہوجاتا ہے اور بیچنے والا شخص قیمت کا مالک ہوجاتا ہے۔ (درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام، جلد 1، صفحہ 333، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

نہر الفائق میں ہے:

و حكمه الملك و هو القدرة على التصرف شرعاً

ترجمہ: بیع کا حکم یہ ہے کہ ملکیت ثابت ہوجاتی ہے اور ملکیت یہ ہے کہ شرعاً اس چیز میں تصرف کرنے کی قدرت حاصل ہوجانا۔ (النھر الفائق، کتاب البیوع، جلد 3، صفحہ 336، مطبوعہ بیروت)

شیخ الاسلام و المسلمین امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ میں لکھتے ہیں: ”ملک ایک اختصاص حکمی ہے کہ انسان کو اس کے مال میں اطلاق تصرف کا ثمرہ دیتاہے۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد 19، صفحہ 394، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: Aqs-2766

تاریخ اجراء: 18 شوال المکرم 1446ھ / 17 اپریل 2025ء