پرائز بانڈ بیچنے کے بعد انعامی رقم کا مالک کون؟

پرائز بانڈ بیچنے کے بعد انعام نکلا تو انعامی رقم کا مالک کون ہوگا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ کسی شخص کا حکومتی قرعہ اندازی میں پرائز بانڈ پر انعام نکلا ، مگر جس کے پاس پرائز بانڈ تھا، اسے معلوم نہ ہوا اور اس نے چند ماہ بعد پرائز بانڈ کسی کو فروخت کر دیا اور جس نے پرائز بانڈ خریدا، اسے بھی کچھ عرصے کے بعد پتہ چلا کہ اس پرائز بانڈ پر میرے خریدنے سے کچھ عرصہ پہلے انعام لگا تھا، چنانچہ اس نے وہ انعام وصول کر لیا۔

پہلے شخص (بائع) کو معلوم ہوا تو اس کا یہ کہنا ہے کہ یہ انعامی رقم میری ہے اور میں ہی اس کا مالک ہوں، کیونکہ جب پرائز بانڈ پر انعام لگا تھا، تو وہ بانڈ میری ملکیت میں تھا۔ اور دوسری بات یہ کہ میں نے اسے بانڈ بیچا ہے، اس کی انعامی رقم نہیں بیچی، اگر انعامی رقم کے ساتھ بیچتا تو کافی زیادہ قیمت پر بیچتا۔

لہذا آپ سے سوال یہ ہے کہ شرعی نقطہ نظر سے اس انعام کا مستحق کون ہے، دوسرا شخص کہ جس کے پاس فی الوقت یہ پرائز بانڈ ہے اور اس نے انعام وصول کیا؟ یا وہ پہلا شخص کہ جب انعام لگا، تو وہ پرائز بانڈ کا مالک تھا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں چونکہ دوسرے شخص یعنی خریدار نے پرائز بانڈ کی انعامی رقم وصول کر لی ہے، تو وہی اِس انعام کا مالک ہے، اسے اپنے جس کام میں بھی خرچ کرنا چاہے، کر سکتا ہے۔

اس میں تفصیل یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے پرائز بانڈ کی قرعہ اندازی کے بعد متعلقہ پرائز بانڈ ہولڈر کو جو رقم دی جاتی ہے، یہ رقم حکومت کی طرف سے انعام و عطیہ ہوتی ہے اور حکومت کی طرف سے یہ جس کے نام پر جاری ہو گی، وہی اس کا مستحق ہو گا اور قانوناً بھی انعام وصول کرتے وقت جس کی ملکیت میں بانڈ ہو، اسی کو حق دار مانا جاتا ہے۔

اور چونکہ یہ رقم، انعام و تبرع ہے، اس لئے شرعی نقطہ نظر سے جب تک اس رقم کو وصول (قبضہ) نہ کر لیا جائے، پرائز بانڈ رکھنے والا شخص اُس انعامی رقم کا مالک نہیں بنتا اور چونکہ پہلے شخص (بائع) نے اس رقم کو وصول نہیں کیا تھا، اس لئے پرائز بانڈ بیچتے وقت وہ اس انعام کا مالک ہی نہیں بنا تھا، بلکہ اس نے محض پرائز بانڈ بیچا ہے اور جب خریدار نے اس انعام کو وصول کر لیا، تو وہی اس انعامی رقم کا مالک بن گیا۔لہذا بائع کا یہ کہنا کہ جب پرائز بانڈ پر انعام لگا تھا، تو وہ بانڈ میری ملکیت میں تھا، اس لئے انعامی رقم مجھے دی جائے، یہ درست نہیں۔

اور بائع کا یہ کہنا کہ میں نے اسے پرائز بانڈ بیچا ہے، اس کا انعام نہیں بیچا، اگر وہ اس کے انعام کو بیان کر کے اسے بیچتا، تو یقیناً انعامی رقم کے برابر، اُس پرائز بانڈ کی قیمت اُتنی زیادہ ہوتی، جبکہ میں نے تو صرف پرائز بانڈ کی ہی رقم بطور ثمن وصول کی ہے؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات کئی اعتبار سے درست نہیں ہے، کیونکہ

اولاً تو جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ انعام تبرع ہے اور قبلِ قبضہ ملکیت میں نہیں آتا، اس لئے جو چیز ملکیت میں ہی نہ ہو، اسے بیچا نہیں جا سکتا، بلکہ خاص انعام ہی کے حوالے سے بھی فقہاء نے صراحت فرمائی ہے کہ قبضہ کرنے سے پہلے انعام کی بیع درست نہیں ہے، لہذا یہ بات ہی خارج از بحث ہے کہ بائع نے انعامی رقم کو بیچا تھا یا نہیں بیچا۔

ثانیاً یہ کہ انعام کی حیثیت زیادہ سے زیادہ بھی ایک وصف کی ہے کہ جس کی وجہ سے لوگوں کے نزدیک اس چیز کی ویلیو بڑھ جاتی ہے، جیسے کوئی حاملہ جانور کو بیچے، تو اگرچہ فقط حمل کی بیع درست نہیں، لیکن جب حاملہ جانور کو بیچا جائے، تو اس میں حمل کا وصف ہونے کی وجہ سے اس کی قیمت بڑھ جائے گی۔ اور ہماری صورت میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ بائع کو اس پرائز بانڈ کے عمدہ و مرغوب فیہ وصف کا علم نہیں تھا اور اس نے لاعلمی میں اسے بغیر انعام والا عام سا پرائز بانڈ سمجھ کر بیچ دیا۔لیکن انعام کو وصف تسلیم کرنے کی صورت میں بھی بائع، پرائز بانڈ کے مقرر کردہ ثمن سے زیادہ کا مستحق نہیں، کیونکہ قوانین شرعیہ کی رُو سے خرید و فروخت میں ثمن عین کے مقابل ہوتا ہے، وصف کے مقابل نہیں ہوتا کہ وصف تابع ہے اور فقہاء نے صراحت فرمائی ہے کہ اگر بائع کو مبیع میں موجود کسی عمدہ (مرغوب فیہ) وصف کا علم نہ ہو اور مشتری کے پاس جا کر چیز میں وہ وصف ظاہر ہو، تو چونکہ بیع تام ہو چکی اور مبیع پر مشتری کا قبضہ ہو گیا، تو بائع کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اس مرغوب فیہ وصف کے بدلے میں کسی چیز (یعنی قیمت میں اضافے وغیرہ ) کا مطالبہ کرے۔

اس کی ایک مثال فقہاء نے یہ بھی بیان کی ہے کہ اگر بائع نے اپنے گمان میں کوئی عیب والی چیز بیچی اور اس وجہ سے اس کی قیمت کم مقرر کی، جبکہ در حقیقت وہ چیز صحیح و سالم تھی یعنی بغیر عیب والی ہونے کی وجہ سے اس کی قیمت زیادہ بنتی تھی، تو بیچنے کے بعد بائع کو کوئی اختیار نہیں ہو گا۔

ثالثاً یہ کہ اگر انعام کو پرائز بانڈ سے حاصل ہونے والا نمو (بڑھوتی) و نفع قرار دیا جائے، تب بھی جب بائع نے پرائز بانڈ بیچا اور مشتری نے خرید لیا، تو اب مشتری اس بانڈ کا مالک ہے اور اس بانڈ کا مکمل نفع (انعام وغیرہ) بھی اسی کو ملے گا، کیونکہ فقہاء نے صراحت فرمائی ہے کہ جو کچھ مبیع سے منافع حاصل ہو، جیسے اس سے کمائی ہونا، حاملہ جانور سے بچہ پیدا ہو جانا، وغیرہ، تو وہ نمو و نفع مشتری کا ہے، کیونکہ خریداری کے وقت سے ہی اس کو ملک تام حاصل ہو گئی ہے۔

رابعاً یہ کہ پرائز بانڈ کی انعامی رقم بائع کی ملکیت میں بھی نہیں اور اس میں حقیقتاً موجود (Physical)بھی نہیں ہے، جبکہ اگر مبیع میں وقتِ عقد بھی حقیقتاً کوئی ایسی چیز موجود ہو، جو اسی مبیع کی جنس سے ہو یا اس کے تابع کوئی چیز نکلے، تو اقوالِ فقہاء کی روشنی میں وہ چیز بھی مشتری کی ہی ہو گی۔ اس کی کئی نظائر موجود ہیں:

(1) مثلا کسی نے مچھلی خریدی اور اس کا پیٹ چاک کرنے پر معلوم ہوا کہ اس کے پیٹ میں ایک اور مچھلی ہے، تو دوسری مچھلی بھی مشتری کی ہو گی۔

(2) اور اگر کسی نے سیپ خریدی اور اسے کھولنے پر اس میں سے موتی نکلا، تو وہ مشتری کے لئے ہے۔

(3) اگر کسی نے مرغی خریدی اور اس میں سے انڈہ نکلا، تو یہ مرغی کی بیع میں تبعاً داخل ہے اور مشتری کا ہو گا۔ لہذا بہر صورت پرائز بانڈ کے انعام کا مالک دوسرا شخص یعنی خریدار ہے کہ جس نے اپنی ملکیت والے پرائز بانڈ کی انعامی رقم وصول کی ہے۔

پرائز بانڈ کے صلہ و تبرع ہونے اور قبلِ قبضہ مالک نہ بننے اور بیع کے عدم جواز پر جزئیات:

انعام کی شرعی حیثیت کے بارے میں اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں:” انعام۔۔۔ صلہ اورتبرع ہوتا ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد 19، صفحہ 469، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

حکومت کی طرف سے جس فرد کو انعام ملے، وہ خاص اُسی کا حق ہے، چنانچہ مبسوط سرخسی اور فتاوی قاضی خان میں ہے

و لا يشاركه فيما يرث من ميراث و لا جائزة يجيزها السلطان و لا الهبة و لا الصدقة

ترجمہ: اور ایک شریک، دوسرے شریک کے ساتھ اس چیز میں شریک نہیں ہو گا، جو اسے میراث میں ملے اور نہ اس انعام میں جو سلطان (حکومت) اس کو دے اور نہ ہبہ اور صدقہ میں۔(فتاوی قاضی خان، کتاب الشرکۃ، جلد 3، صفحہ 572، مطبوعہ بیروت)

اسی بارے میں علامہ ابن نجیم مصری علیہ رحمۃ اللہ القوی "الاشباہ والنظائر" میں "بزازیہ" کے حوالے سے لکھتے ہیں:

و العطاء للذي جعل الإمام العطاء له؛ لأن الاستحقاق للعطاء بإثبات الإمام لا دخل له لرضاء الغير

ترجمہ: اور عطیہ اسی کے لئے ہے، جس کے لئے حاکم نے مقرر کیا ہے، اس لئے کہ حاکم کے مقرر کرنے سے عطیہ کا مستحق ہوا جاتا ہے، جس میں کسی دوسرے کی رضا کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔(الاشباہ و النظائر، الفن الاول، القاعدۃ الخامسۃ، جلد 1، صفحہ 106، مطبوعہ بیروت)

اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں: ”بتصریح علماء منصب و پنشن بھی موروث نہیں، بعد فوت منصب دار، رئیس جس کا نام مقرر کر دے، وہی مستحق ہے، باقی ورثہ کا کچھ حق نہیں۔ فتح القدیر و رد المحتار میں ہے

العطاء صلۃ فلایورث

ترجمہ: عطیہ ایک صلہ ہے، اس میں وراثت جاری نہیں ہو گی۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 25، صفحہ 393، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

انعام پر جب تک قبضہ نہ کر لیا جائے، تب تک ملکیت میں نہیں آتا، چنانچہ فتح القدیر اور بحر الرائق میں ہے

العطاء؛ لأنه نوع صلة ولیس بدین فلهذا يسمى عطاء فلا يملك قبل القبض

ترجمہ: عطیہ (یعنی حکومت کی طرف سے ملنے والا انعام)، کیونکہ یہ صلہ کی ایک قسم ہے، لہذا اسی لئے اس کا نام عطیہ رکھا گیا ہے، تو قبضہ کرنے سے پہلے وہ شخص اس کا مالک نہیں ہو گا۔ (بحر الرائق، کتاب السیر، باب الجزیۃ، جلد 5، صفحہ 201، مطبوعہ کوئٹہ)

اسی بارے میں مجمع الانھر، العنایہ اور شرح وقایہ میں ہے

العطاء لأنه صلة ، فلا يملك قبل القبض

ترجمہ: عطیہ (یعنی حکومت کی طرف سے ملنے والا انعام)، چونکہ یہ صلہ ہے، اس لئے قبضہ کرنے سے پہلے وہ شخص مالک نہیں ہو گا۔(العنایہ شرح الھدایہ، کتاب السیر، باب الجزیۃ، جلد 6، صفحہ 67، مطبوعہ بیروت)

قبلِ قبضہ انعام کی بیع جائز نہیں، چنانچہ اسی عبارت کے تحت عمدۃ الرعایۃ حاشیہ شرح وقایۃ میں ہے

قوله: فلا يملك قبل القبض؛ فلا يجري فيه الإرث ولا يجوز بيعه وهبته وقسمته ونحو ذلك قبل القبض

ترجمہ: ان کا یہ قول کہ وہ قبضے سے پہلے مالک نہیں ہو گا، لہذا (اس کا مفاد یہ ہے کہ) اس میں وراثت جاری نہیں ہو گی اور قبضے سے پہلے اس کو بیچنا، ہبہ کرنا اور تقسیم کرنا وغیرہ امور جائز نہیں ہوں گے۔(عمدۃ الرعایۃ حاشیہ شرح وقایۃ، کتاب السرقۃ، جلد 2، صفحہ 202، مطبوعہ بیروت)

مبیع میں کوئی مرغوب فیہ وصف ظاہر ہوا تو وہ بغیر قیمت مشتری کا ہے اور بائع کو اختیار نہ ہونے پر جزئیات:

بیع کے بعد مبیع میں کوئی عمدہ وصف ظاہر ہوا، تو وہ مشتری کا ہے اور بائع کو اختیار نہیں، چنانچہ البنایہ شرح الھدایہ میں ہے

أما في الشراء الصحيح الثمن يقابل العين لا الوصف، إذ الوصف تابع، ولهذا لو ظهر للمبيع وصف مرغوب قد نفياه عند العقد، لم يكن للبائع أن يطالب بمقابله شيئا

ترجمہ: بہر حال شراء صحیح میں ثمن، عین کے مقابل ہوتا ہے، وصف کے مقابل نہیں ہوتا کہ وصف تابع ہے اور اسی لئے اگر مبیع میں کوئی مرغوب فیہ وصف ظاہر ہوا کہ جس کی عقد کے وقت انہوں نے نفی کر دی تھی، تو بائع کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اس مرغوب فیہ وصف کے بدلے میں کسی چیز (قیمت میں اضافے) کا مطالبہ کرے۔(البنایہ شرح الھدایہ، کتاب السیر، باب استيلاء الكفار، جلد 6، صفحہ 608، مطبوعہ کوئٹہ)

اسی بارے میں تبیین الحقائق میں ہے

إن وجده ناقصا يثبت له الخيار لفوات وصف مرغوب فيه مشروطا في العقد و إن وجده زائدا فهو له بذلك الثمن؛ لأن الوصف لا يقابله شيء من الثمن ولا خيار للبائع

ترجمہ: اگر مشتری نے چیز کو ناقص پایا، تو عقد میں مشروط کئے گئے مرغوب فیہ وصف کے فوت ہونے کی وجہ سے اسے اختیار حاصل ہو گا اور اگر مشتری نے مبیع میں زائد وصف پایا، تو وہ اسی قیمت پر مشتری کا ہے، کیونکہ وصف کے مقابل ثمن میں سے کوئی حصہ نہیں ہوتا اور بائع کو اختیار حاصل نہیں ہے۔(تبیین الحقائق، کتاب البیوع، جلد 4، صفحہ 284، مطبوعہ کوئٹہ)

بائع نے اپنے گمان میں عیب زدہ چیز بیچی، مگر درحقیقت وہ صحیح تھی، یا بائع نے اپنے طور پر عام سی چیز بیچی مگر اس مبیع میں کوئی زائد وصف بھی موجود تھا، تو یہ مشتری کی ہی ہے، چنانچہ ھدایہ میں ہے

والوصف لا يقابله شيء من الثمن۔۔۔ و إن وجدها أكثر من الذراع الذي سماه فهو للمشتري، ولا خيار للبائع؛ لأنه صفة فكان بمنزلة ما إذا باعه معيبا فإذا هو سليم

ترجمہ: اور وصف کے مقابل ثمن میں سے کوئی حصہ نہیں ہوتا اور اگر بیان کردہ پیمائش سے زیادہ ذراع مشتری کو ملے، تو وہ زائد مشتری کے ہی ہیں اور بائع کو کوئی اختیار نہیں ہو گا، کیونکہ یہ صفت ہے تو یہ اس کے قائم مقام ہو گا کہ جب کسی نے (اپنے گمان میں) کوئی عیب والی چیز بیچی، (جبکہ درحقیقت ) وہ صحیح و سالم تھی،( تو اب بائع کو کوئی اختیار نہیں ہو گا)۔ (الھدایۃ، کتاب البیوع، جلد 3، صفحہ 24، مطبوعہ کوئٹہ)

اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے بحر الرائق، البنایہ شرح ھدایہ، جوھرۃ نیرۃ اور حاشیۃ الشلبی میں ہے

و الفظ للجوھرۃ لأن الذرع وصف في الثوب۔۔۔ والوصف لا يقابله شيء من الثمن ۔۔۔ كما لو اشترى عبدا على أنه أعور أو مقطوع اليد فوجده صحيحا كان للمشتري من غير زيادة في الثمن ولا خيار للبائع

ترجمہ: کیونکہ ذرع کپڑے میں وصف ہے اور وصف کے مقابل ثمن میں سے کوئی حصہ نہیں ہوتا، جیسے کسی نے اس طور پر غلام خریدا کہ وہ کانا یا ہاتھ کٹا ہوا ہے، تو مشتری نے اس غلام کو صحیح پایا، تو بغیر قیمت کی زیادتی کے ہی یہ غلام مشتری کا ہے اور بائع کو کوئی اختیار نہیں ہو گا۔ (الجوھرۃ النیرۃ، کتاب البیوع، جلد 1، صفحہ 229، مطبوعہ ملتان)

اسی بارے میں عمدۃ الرعایۃ میں ہے

حاصل الاستدلال أن الذراع وصف، والثمن لا ينقسم على الأوصاف، فكان كل الثمن مقابلا لكل المبيع، إلا أنه ثبت الخيار للمشتري؛ لأنه فاته وصف مرغوب فيه وقع عليه العقد، وما زاد فللمشتري، ولا خيار فيه للبائع؛ لأن الزائد هاهنا وصف، فكان هذا بمنزلة ما إذا باع بشرط أنه معيب، فإذا هو سليم

ترجمہ: استدلال کا حاصل یہ ہے کہ ذراع وصف ہے اور ثمن کو اوصاف پر تقسیم نہیں کیا جاتا، لہذا پورا ثمن پوری مبیع کے مقابل ہو گا، مگر یہ کہ مشتری کے لئے اختیار بھی ثابت ہو جائے گا، کیونکہ جس مرغوب فیہ وصف پر عقد واقع ہوا تھا، وہ فوت ہو گیا۔ اور جو زائد ہو، وہ مشتری کے لئے ہو گا اور بائع کو اس میں کوئی اختیار نہیں ہے، کیونکہ زائد یہاں وصف ہے، تو یہ اس کے قائم مقام ہو جائے گا کہ کسی نے اس شرط پر بیچا کہ یہ عیب زدہ ہے، جبکہ درحقیقت وہ صحیح تھا۔(عمدۃ الرعایۃ حاشیۃ شرح وقایۃ ، کتاب البیوع، جلد 6، صفحہ 350، مطبوعہ بیروت)

مبیع پر قبضہ کے بعد، مبیع کے نمو و منافع کا مالک مشتری ہو گا، اس پر جزئیات:

مبیع کی نمو کا مشتری مالک ہے، چنانچہ تحفۃ الفقہاء میں ہے

فأما في الزرع فالنماء يكون للمشتري طيبا ۔۔۔ لأنه نماء ملك المشتري

ترجمہ: بہر حال کھیتی میں بڑھوتری، تو وہ مشتری کے لئے پاک (حلال) ہے، کیونکہ یہ مشتری کی ملک کی بڑھوتری ہے۔(تحفۃ الفقھاء، کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، صفحہ 243، مطبوعہ کوئٹہ)

اسی بارے میں جامع الفصولین میں ہے

ما يخرج منها يكون للمشتري لأنه نماء ملكه

ترجمہ: جو کچھ بھی اس سے نکلے، وہ مشتری کا ہو گا، کیونکہ یہ مشتری کی ملک کی نماء (بڑھوتری، افزائش)ہے۔ (جامع الفصولین، جلد 2، صفحہ 59)

مبیع سے جو کچھ حاصل ہو وہ مشتری کا ہے، چنانچہ مجمع الانھر اور در مختار میں ہے

كل ما يحدث من المبيع (كالكسب والولد والعقر) ولو (قبل الإجازة) يكون للمشتري؛ لأن الملك تم له من وقت الشراء

ترجمہ:جو کچھ مبیع سے حاصل ہو، جیسے کمائی، اولاد اور عقر، تو وہ مشتری کا ہے، اگرچہ اجازت سے پہلے ہو، کیونکہ خریداری کے وقت سے ہی اس کو ملکِ تام حاصل ہو گئی ہے۔(در مختار، کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، جلد 7، صفحہ 335، مطبوعہ کوئٹہ)

اسی بارے میں جوھرۃ نیرۃ میں ہے

و إن لم تكن الثمرة موجودة وقت العقد وأثمرت بعده قبل القبض فإن الثمرة للمشتري لأنها نماء ملكه

ترجمہ: اور اگر پھل عقد کے وقت موجود نہ ہوں اور عقد کے بعد اور مشتری کے قبضے سے پہلے پھل اُگ آئیں، تو یہ پھل مشتری کے ہیں، کیونکہ یہ مشتری کی ملک کی بڑھوتری ہے۔ (الجوھرۃ النیرۃ، کتاب البیوع، جلد 1، صفحہ 230، مطبوعہ ملتان)

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے

الزيادة الحاصلة في المبيع بعد العقد وقبل القبض كالثمرة وأشباهها هي للمشتري مثلا إذا بيع بستان ثم قبل القبض حصل فيه زيادة كالثمر والخضراوات تكون تلك الزيادة للمشتري و كذا لو ولدت الدابة المبيعة قبل القبض كان الولد للمشتري۔۔۔ و إنما يعد ذلك زيادة على المبيع ; لأن تلك الثمرة نماء ملك المشتري

ترجمہ: خرید و فروخت کے عقد کے بعد اور مشتری کے چیز پر قبضہ کرنے سے پہلے مبیع میں جو زیادتی (اضافہ) حاصل ہو، وہ مشتری کے لئے ہے، مثلا کسی نے باغ بیچا، پھر قبضہ کرنے سے پہلے اس میں پھل اور سبزہ زیادہ ہو گیا (تو وہ مشتری کے لئے ہے)۔ اور اسی طرح اگر بیچی گئی لونڈی نے قبضے سے پہلےبچے کو جن دیا، تو یہ بچہ بھی مشتری کے لئے ہو گا اور اسے مبیع کی زیادتی شمار کیا جائے گا، کیونکہ یہ پھل مشتری کی ملک کی بڑھوتری ہے۔ (درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام، الباب الثانی، الفصل الرابع، الزيادة الحاصلة في المبيع، جلد 1، صفحہ 215، مطبوعہ بیروت)

مشتری کے مبیع پر قبضہ کرنے کے بعد، مبیع سے جو منافع ہوں گے، مشتری ان کا مالک ہے، چنانچہ اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں: ”بیع ایجاب وقبول سے تمام ہوجاتی ہے، چیز بائع کے ملک سے نکل کر مشتری کی ملک میں داخل ہوجاتی ہے۔۔۔ اگر اس (بائع) نے بعض یا کل ثمن لینے سے پہلے مبیع اس (خریدار) کے قبضہ میں دے دی، تو اس سے جو کچھ منافع حاصل ہوں، ملکِ مشتر ی ہیں، مشتری کے لئے حلال ہیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 17، صفحہ 88، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

جو چیز مبیع سے پیدا ہوتی ہو یا تبعا مبیع داخل ہو، وہ اس سے نکلے، تو وہ مشتری کی ہی ہے، اس پر جزئیات:

محیط برہانی، بحر الرائق، بدائع الصنائع اور دیگر کتب فقہ میں ہے

واللفظ للبدائع ولو اشترى صدفة فوجد فيها لؤلؤة فهي للمشتري؛ لأنها تتولد من الصدفة بمنزلة البيضة تتولد من الدجاجة فكانت بمنزلة أجزائها فتدخل في بيعها كما تدخل البيضة في بيع الدجاجة وكذلك إذا اشترى سمكة فوجد فيها لؤلؤة؛ لأن السمك يأكل الصدفة فصار كما لو اشترى سمكة فوجد فيها سمكة أخرى؛ أن الثانية تكون له

ترجمہ: اور اگر کسی نے سیپ خریدی اور اس میں سے موتی نکلا، تو وہ مشتری کے لئے ہے، کیونکہ یہ سیپ سے پیدا ہوتا ہے، یہ انڈے کے قائم مقام ہو گا، جو مرغی سے پیدا ہوتا ہے، لہذا یہ اس کے اجزاء کے قائم مقام ہو گا اور اس کی بیع میں داخل ہو گا، جیسے مرغی کی بیع میں انڈا داخل ہوتا ہے اور اسی طرح اگر مچھلی خریدی اور اس میں لؤلؤ تھا (تو وہ مشتری کا ہو گا)، کیونکہ مچھلی سیپ کھاتی ہے، تو یہ ایسے ہی ہے کہ اگر کسی نے مچھلی خریدی اور اس میں سے دوسری مچھلی نکلی، تو یہ دوسری مچھلی بھی مشتری کی ہو گی۔(بدائع الصنائع، کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، جلد 4، صفحہ 372، مطبوعہ کوئٹہ)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: محمد احمد سلیم مدنی

مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: FSD-9191

تاریخ اجراء: 24 جمادی الاولی 1446ھ/27 نومبر 2024