
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ جس شخص کے بارے میں علم ہو کہ یہ اسمگلنگ کرکے سامان لاتا ہے اور بیچتا ہے، اس شخص سے وہ اسمگلنگ والا سامان خریدنا کیسا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اسمگلنگ کرنا اور اسمگلر سے سامان خریدنا دونوں کام ناجائز و گناہ ہیں، کیونکہ یہ غیر قانونی ہے اور اس کام کے کرنے سے خود کو ذلت پر پیش کرنا پایا جاتا ہے کہ اگرپکڑے گئے، تو سزا کا سامنا کرنا ہوگا اور خود کو ذلت پر پیش کرنا از روئے حدیث ناجائز و حرام اور گناہ کاکام ہے، البتہ وہ چیز خود کوئی حرام چیز نہیں اور نفس بیع کے نافذ ہونے کی تمام شرائط پائی گئیں، توبیع نافذ ہوجائے گی اورخریدنے والا اس چیز کا مالک بن جائے گا۔
حدیث پاک میں ہے:
عن حذیفۃ رضی اللہ تعالی عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم: لا ینبغی للمؤمن ان یذل نفسہ
ترجمہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: مومن کو نہیں چاہیے کہ وہ اپنے نفس کو ذلت پرپیش کرے۔ (ترمذی شریف جلد 2، صفحہ 498، مطبوعہ لاھور)
مرقاۃ المفاتیح میں اس حدیث کے تحت فرمایا:
(لا ینبغی) ای لایجوز(للمؤمن ان یذل نفسہ) ای باختیارہ
ترجمہ:حدیث پاک کا مطلب یہ ہے کہ مومن کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے اختیار سےاپنے آپ کو ذلت پرپیش کرے۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد 5، صفحہ 416، مطبوعہ کوئٹہ)
مبسوط للسرخسی میں ہے:
اذلال النفس حرام
ترجمہ: خود کو ذلت پرپیش کرنا حرام ہے۔ (المبسوط للسرخسی ،جلد5،صفحہ23،مطبوعہ کوئٹہ)
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں: ’’کسی قانونی جرم کا ارتکاب کرکے اپنے آپ کو بلاوجہ ذلت وبلا کے لیے پیش کرنا شرعاً بھی جرم ہے۔ کما استفید من القرآن المجید و الحدیث‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 581، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وقار الفتاوی میں خاص اسمگلنگ کے متعلق فرمایا: ”اسمگلنگ کرنا یا اسمگلنگ کا مال بیچنا اور خریدنا اس لیے ناجائز ہے کہ یہ ملک کے قانون کے خلاف ہے اور مسلمان کو خلافِ قانون کوئی کام کرنا، جائز نہیں ہے، اس لیے کہ خلافِ قانون کام کرنے سے جب پکڑا جائے گا، تو پہلے جھوٹ بولے گا، اگر جھوٹ سے کام نہ چلا تو رشوت دے گا، رشوت سے بھی کام نہ چلا تو سزا ہوگی، جس میں اس کی بے عزتی ہے۔ مسلمان کوئی ایسا کام ہی نہ کرے جس سے جھوٹ بولنا یا رشوت دینا پڑے یا جس سے اس کی بے عزتی ہو، مگرایسا کرنے والا گنہگار ہونے کے باوجود مال کا مالک ہوجاتا ہے، جبکہ بیع، شریعت کے مطابق ہو، جب مال میں حرمت نہیں آئی، تو اپنا مال ہرکام میں خرچ کرسکتا ہے۔‘‘ (وقار الفتاوی، جلد 1، صفحہ 252، مطبوعہ کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد فراز عطاری مدنی
مصدق: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری
فتویٰ نمبر: Gul-1883
تاریخ اجراء: 08 رجب المرجب 1441ھ/ 04 مارچ 2020ء