سودی ایگریمنٹ کے تحت خریداری کا حکم؟

سودی ایگریمنٹ کے تحت خریداری کرنا کیسا جبکہ معلوم ہو کہ سود نہیں دینا  پڑے گا

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

قسطوں پرچیزخریدنے میں اگر 3 مہینوں کے اندر ادائیگی کی جائے تو 0٪ سود ہوگا۔ اگر 3 مہینوں کے اندر ادائیگی نہ کی جائے تو سود لگایا جائے گا۔ میں 10,000 کی رقم ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں اور 3 مہینوں میں مکمل ادائیگی کر سکتا ہوں، تو کیا مجھے قسطوں پر چیزیں خریدنے کی اجازت ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں اگر خریداری میں یہ شرط ہوتی ہے کہ  3 مہینے میں ادائیگی مکمل نہ کرنے کی صورت میں خریدار اضافی رقم یعنی سود پَے کرے گا، تو ایسا سودا یعنی خرید و فروخت جائز نہیں ہے، چاہے خریدار کو یہ اطمینان ہو کہ میں 3 مہینے میں ادائیگی کر دوں گا اور سود دینے کی نوبت نہیں آئے گی، تب بھی یہ سودا ناجائز ہی رہے گا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسی شرط کے ساتھ سودا ہونے میں سودی معاہدہ پایا جاتا ہے، کیونکہ خریدار کمپنی یا دکاندار سے یہ معاہدہ کرتا ہے کہ اگر ادائیگی میں تاخیر ہوئی، تو میں سود ادا کروں گا اور اس معاہدے کے ساتھ ہی کمپنی اسے اپنی چیز بیچتی ہے۔ اس طرح خریدار کی طرف سے سود دینے پر رضا مندی ثابت ہو گئی اور یہ بھی گناہ ہے۔ مزید یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض اوقات لوگ وقت پر ادائیگی نہیں کر پاتے، تو پھر کمپنی سود ڈالنا شروع کر دیتی ہے، یہ دوسرا گناہ ہو گا۔ پہلا گناہ تو اس وقت ہوا، جب خریدار نے سودی معاہدہ کیا کہ اگر ادائیگی میں تاخیر ہو گئی، تو اضافی رقم یعنی سود دینا پڑے گا۔ دوسرا گناہ اس وقت ہو گا، جب خریدار سود کی ادائیگی کرے گا اور بعض اوقات ایسی نوبت آ بھی جاتی ہے۔ اگر بالفرض یہ نوبت نہ بھی آئے، تب بھی ایسی خریداری سودی معاہدے کی وجہ سے ناجائز ہی رہے گی۔

سودی معاہدہ کرنے کے بارے میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ’’سودی دستاویز لکھانا سود کا معاہدہ کرنا ہے اور وہ بھی حرام ہے۔۔۔ جب اس کا تمسک موجبِ لعنت اور سود کھانے کے برابر ہے، تو خود اس کا معاہدہ کرنا کس درجہ خبیث و بدتر ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 6، صفحہ 546، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ مولانا مفتی محمد وقارالدین رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: ”فروخت کرنے والے کو شریعت نے یہ اختیار دیا ہے کہ نقد کی قیمت اور رکھے اور ادھار کی قیمت اور مقرر کرے مگر شرط یہ ہے کہ ادھار کی مدت متعین کر دی جائے۔۔۔  جتنی مدت زیادہ ہو، اتنی قیمت زیادہ ہو سکتی ہے۔ مگر سوال میں جو صورت بعد میں لکھی ہے کہ اگر وہ لیٹ کریں، تو دو فیصد یا چار فیصد جرمانہ لیا جائے گا، یہ ناجائز ہے۔ شریعت میں مال پر جرمانہ جائز ہی نہیں ہے۔ ملخصا “ (وقار الفتاوی، جلد3، ص264، مطبوعہ بزم وقار الدین، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد شفیق عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4174

تاریخ اجراء: 08 ربیع الاول1447 ھ/02ستمبر 2520 ء