
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
اسپیکر بیچنا جائز ہے یا نہیں؟ میری دکان پر بلو ٹوتھ والے اور کارڈ والے ہر طرح کے اسپیکر موجود ہیں تو کیا انہیں بیچنا درست ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اسپیکر بیچنا جائز ہے کہ اسپیکر کے جائز و ناجائز دونوں استعمالات ہیں، خریدنے والا مختار ہے، یہ اب اس پرہے کہ وہ اس کو کس طور پر استعمال کرتا ہے، وہ اگر اسے ناجائز طور پر استعمال کرے تو اس کا ذمہ دار وہ خود ہے۔
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
﴿وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى﴾
ترجمہ کنز الایمان: اور کوئی بوجھ اُٹھانے والی جان دوسری کا بوجھ نہ اُٹھائے گی۔ (پارہ 22، سورۃ فاطر، آیت نمبر 18)
مذکورہ آیت مبارکہ کے تحت مفسر قرآن مفتی محمد قاسم عطاری دامت برکاتہم العالیہ تحریر فرماتے ہیں: ”آیت کے اس حصے کا معنی یہ ہے کہ قیامت کے دن ہر ایک جان پر اسی کے گناہوں کا بوجھ ہو گا جو اُس نے کئے ہیں اور کوئی جان کسی دوسرے کے عوض نہ پکڑی جائے گی۔“ (تفسیر صراط الجنان، جلد 8، صفحہ 190،مطبوعہ مکتبۃ المدینۃ، کراچی)
رد المحتار میں ہے
لا يكره بيع الجارية المغنية والكبش النطوح و الديك المقاتل و الحمامة الطيارة؛ لأنه ليس عينها منكرا وإنما المنكر في استعمالها المحظور. اهـ
ترجمہ: گانا گانے والی باندی، سینگ مارنے والے مینڈھے، لڑائی والے مرغ اور اڑنے والے کبوتر کی بیع مکروہ نہیں، کیونکہ ان کا عین منکر(معصیت) نہیں بلکہ ان کا ممنوع کاموں میں استعمال منکر (معصیت) ہے۔ (رد المحتار علی الدر المختار، جلد 4، صفحہ 268، دار الفكر، بيروت)
وقار الفتاوی میں ریڈیو، ٹی وی وغیرہ کو مرمت کرنے کے متعلق سوال کے جواب میں فرمایا: "یہ سب مشینی آلات کے قبیل(قسم) سے ہیں۔ ان کے جائز و ناجائز ہونے کا حکم فی نفسہ ان پر نہیں، بلکہ ان کے استعمال پر ہوتا ہے۔ ان کا جیسا استعمال ہوگا ویسا ہی حکم ہوگا۔ لہذا ان کی مرمت کر کے روزی کمانا جائز ہے۔" (وقار الفتاوی، ج 01، ص 218، بزم وقار الدین، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-3963
تاریخ اجراء: 01 محرّم الحرام 1447ھ / 27 جون 2025ء