
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ آجکل ایسی انگوٹھیاں اور جوتے بھی دیکھنے میں آرہے ہیں کہ جن پر جاندار کی تصا ویر بنی ہوتی ہیں، جیسے انگوٹھی کے نگینے میں مچھلی یا باز وغیرہ کی تصویر ہوتی ہے، یوہیں جو تے پر پرندوں اور جانوروں کی تصاویر بنی ہوتی ہیں، رہنمائی فرمائیں کہ کیا ایسے جوتے اور انگوٹھیاں بیچنا، خریدنا اور پہننا جائز ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
یہاں دو مسئلے ہیں اور دونوں کا حکم الگ ہے:
(1) جاندار کی تصویر والی انگوٹھی یا جوتوں کی خریدوفروخت: چونکہ جوتے کی خرید و فروخت میں اصل مقصود جوتے کو بیچنا اور خریدنا ہوتا ہے یعنی اصالۃ جوتے کی بیع ہوتی ہے، جبکہ اس پر بنی ہوئی تصاویر محض ضمنی طور پر خود ہی بیع میں داخل ہوتی ہیں، لہٰذا ایسے جوتوں کی خرید و فروخت تو جائز ہے اور انگوٹھی کی خرید و فروخت میں بھی عمومی طور پر اصل مقصود انگوٹھی وغیرہ کی خرید و فروخت ہوتی ہے، نہ کہ تصویر کی، بلکہ تصاویریہاں محض ضمنی ہوتی ہیں، ایسی صورت میں اس قسم کی انگوٹھیوں کی بیع جائز ہے۔
ہاں! بعض اوقات انگوٹھی میں مقصود ہی تصویر ہوتی ہے اور انگوٹھی کا حلقہ محض تابع ہوتا ہے یعنی اس انگوٹھی کو اس لئے خریدا جاتا ہے کہ تنہا اس تصویر یا تصویر والے نگینے کوانگلی پر ٹھہرایا نہیں جاسکتا، جیسے کوئی شخص انگوٹھی میں کوئی خاص تصویر نقش کروائے اور وہ نقش ہی اس کا اصل مقصود ہو، تو ایسی صورت میں اس انگوٹھی کی بیع ناجائز ہے، یوہیں اگر انگوٹھی اور تصویر دونوں مقصود ہوں، بایں معنیٰ کہ خرید و فروخت کے وقت ہی تصویر کی بیع کا بھی ذکر کردیا جائے اور اصل شے کے ساتھ تصویر کو بھی بیع میں شامل کرلیا جائے، تو ایسی صورت میں بھی اس شے کی بیع ناجائز ہے۔
(2) جاندار کی تصویر والی انگوٹھی اور جوتوں کا استعمال: چونکہ انگوٹھی کے نگینے میں عموماً جو تصاویر بنی ہوتی ہیں وہ اتنی چھوٹی ہوتی ہیں کہ انگوٹھی زمین پر رکھ کراگر کھڑے ہوکر دیکھیں تو اعضا کی تفصیل ظاہر نہیں ہوتی اور ایسی تصاویر حکم ممانعت میں داخل نہیں، لہٰذا ان کااستعمال جائز ہے۔ رہے جوتے! تو ان پر بنی ہوئی تصاویر اگرچہ چھوٹی بڑی ہر طرح کی ہوتی ہیں، لیکن چونکہ جوتوں پر بنی ہوئی تصویر مقام توہین میں ہے اور ممانعت اس صورت میں ہے جبکہ تصویر کو تعظیم کے طور پر استعمال کیا جائے یا رکھا جائے، لہٰذا تصویر والے جوتوں کا استعمال بھی جائز ہے۔
یہاں دو باتیں یاد رکھی جائیں: (1) یہ حکم فقط ان چیزوں کو خریدنے ،بیچنے اور استعمال کرنے ہی کا ہے، باقی رہا جاندار کی تصویر والی اشیاء بنانا اور بنوانا یا نقش کرنا اور نقش کروانا ! تو وہ بہرحال جائز نہیں، کیونکہ بنانے میں حرمت کی وجہ یہ ہے کہ اس میں تخلیقِ الہٰی سے مشابہت پائی جاتی ہے، جو اللہ تعالیٰ کے غضب کا سبب ہے اور یہ علت، تصویر بڑی ہو یا چھوٹی، مقام تعظیم میں ہو یا توہین میں، تمام صورتوں میں پائی جاتی ہے، لہٰذا تصویر کا بنانا یا بنوانا مطلقاً حرام ہے۔ (2) مرد کے لیے چاندی کی صرف ایک انگوٹھی پہننا جائز ہے، وہ بھی ایسی کہ جو ساڑھے چار ماشے سے کم کی ہو اور ایک نگینے والی ہو۔
پہلے مسئلے کے جزئیات:
علماء کرام علیہم الرحمۃ نے فرمایا کہ اشیاء مصورہ کی بیع اسی وقت ممنوع ہوگی جبکہ مقصود تصویر ہو،ورنہ نہیں، چنانچہ صحيح البخاری شریف میں ایک حدیث ہے، جس میں فرمایا گیا کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے مصور یعنی تصویر بنانے والے پر لعنت فرمائی۔ (صحیح البخاری، ج 07، ص 169، دار طوق النجاۃ)
اس حدیث پاک کے تحت شرح مشکاۃ للطیبی اور مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
(و المصور): أراد به الذي يصور صور الحيوان دون من يصور صور الأشجار و النبات، قال الخطابي: يدخل في النهي كل صورة مصورة في رق أو قرطاس مما يكون المقصود منه الصورة و كان الرق تبعا له، فأما الصور المصورة في الأواني و القصاع، فإنها تبع لتلك الظروف بمنزلة الصور المصورة على جدر البيوت و السقوف و في الأنماط و الستور، فبيعها صحيح
ترجمہ: اور تصویر بنانے والے سے یہاں مراد ہر وہ شخص ہے جو جاندار کی تصویر بناتا ہے نہ کہ وہ جو درختوں اور نباتات وغیرہا بے جان چیزوں کی تصویر بناتا ہے، امام خطابی علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ اس ممانعت میں ہر وہ تصویر داخل ہے جو کسی تختے یا کسی کاغذ میں بنائی گئی ہو جس سے مقصود وہی تصویر ہو اور تختہ وغیرہ اس کے تابع ہو ، رہی وہ تصویر جو برتنوں اور پیالوں میں بنی ہوتی ہے، تو وہ انہیں برتنوں کے تابع ہے اور وہ ایسی تصویروں کے مرتبے میں ہے جو گھروں کی دیواروں اور چھتوں ، قالین اور پردوں میں بنی ہوتی ہیں، تو ان تصویر والی چیزوں کی بیع درست ہے۔ (شرح الطیبی علی المشکوۃ، ج 07، ص 2103 مكتبة نزار مصطفى الباز ، مكة المكرمة – الرياض) (مرقاۃ المفاتیح، ج 05، ص 1895، دار الفکر، بیروت)
اسی طرح مشکوٰۃ المصابیح میں ایک حدیث پاک ہے کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے بیع الاصنام یعنی بتوں کی بیع کو حرام قرار دیا، اس کے تحت علامہ مظہر الدین زیدانی حنفی علیہ الرحمۃ اپنی کتاب المفاتیح شرح المصابیح میں لکھتے ہیں:
كما لا يجوز بيع الصنم لا يجوز بيع كل شيء مصور إذا كانت صورته مقصودة، و الشيء الذي فيه الصورة تبعا للصورة، أما إذا كان المقصود ذلك الشيء الذي فيه لا الصورة يجوز بيعه، مثل: آنية أو باب أو بيت فيها صورة حيوان
ترجمہ: جيسے بت کی بیع جائز نہیں ہے، اسی طرح ہر تصویر والی شے کی بیع جائز نہیں جبکہ اس سے مقصود وہ تصویر ہو اور جس شے میں وہ تصویر ہے وہ محض تصویر کے تابع ہو، ہاں جب اصل مقصودو ہ شے ہو نہ کہ تصویر تو اس شے کی بیع جائز ہے، جیسے برتن، دروازہ یا گھر جس میں جاندار کی تصویر ہو۔ (المفاتیح شرح المصابیح، ج 03، ص 394،دار النوادر)
لہٰذا تصاویر والی ایسی اشیاء جن میں تصویر مقصود ہی نہیں ہوتی بلکہ بائع و مشتری کو اصل شے سے کام ہوتا ہے اور وہ اِسی کو مبیع سمجھ رہے ہوتےہیں، تو ایسی صورت میں ان تمام اشیاء کی بیع جائز اور تصویر بیع میں تبعا داخل، چنانچہ مفتئ اعظم پاکستان مولانا وقار الدین قادری علیہ الرحمۃ سے سوال کیا گیا کہ وہ کتابیں جن میں تصاویر چھپی ہوتی ہیں، ان کا فروخت کرنا جائز ہے یا نہیں؟ تو جواباً ارشاد فرمایا: ”صورت مسئولہ میں ان کتابوں کو بیچنا جائز ہے کہ یہ کتابوں کی خرید و فروخت کرنا ہے نہ کہ تصاویر کی۔ البتہ علیحدہ سے تصویر کا بیچنا حرام ہے۔‘‘ (وقار الفتاوی، ج 1، ص 218، مطبوعہ بزمِ وقار الدین)
اس طرح کی اشیاء کے حوالے سے حضرت علامہ مفتی محمد اجمل رضا قادری علیہ الرحمۃ سے سوال کیا گیا کہ اس زمانے میں زیادہ تر تجارت ایسی ہے کہ جس میں تصویر ہوتی ہے ،قریب قریب ہر تجارت ایسی ہے، جس میں وہ اس سے ہرگز ہرگز نہیں بچ سکتے، چھوٹے تاجر سے لے کر بڑے تک ہر ایک کو تصویر فروشی کرنی پڑتی ہے، مثلاً اخبار فروش اور کتب فروش کو اخبار اور کتابوں میں چھپی ہوئی تصویریں بیچنی پڑتی ہیں، ماچس کے ساتھ ان کے بکسوں پر چھپی ہوئی تصویریں اور بوٹ فروش کو بوٹ کے بکس پر بلکہ بوٹ پر بنی ہوئی تصویریں بیچنی پڑتی ہیں اور خریدنےوالے کو خریدنا پڑتی ہیں اور خاص طور پر جنرل مرچنٹ جس کی کہ ہر چیز پر تصویر بنی ہوئی ہوتی ہے۔ بعض پر صرف چھپی ہوئی اور بعض پر ابھری ہوئی اور وہ اس تصویر سے کسی صورت بچ نہیں سکتے، ایسی صورت حال میں ان اشیاء کو بیچنا ،خریدنا کیسا ہے؟ یہ تجارت جائز ہے یا نہیں؟
تو آپ علیہ الرحمۃ نے ارشاد فرمایا:”جواز بیع کا مدار شے کے مباح الانتفاع ہونے پر اور عدمِ جوازِ بیع کا حکم اس کے غیر مباح الانتفاع ہونے پر موقوف ہے، نیز کسی چیز کے اصالۃً یا تبعا بیع کرنے کا بھی فرق ہے،مثلا تنہا حقِ مرور، حق شُرب، وغیرہ حقوق کی بیع اصالۃً ناجائز ہے اور انہیں حقوق کی بیع تبعا جائز ہے۔۔ اب سوال کا مختصر جواب دیا جاتا ہے ۔۔ اخبار، کتابوں، ماچس، بوٹ وغیرہ میں ظاہر ہے کہ بیع اصالۃً ان چیزوں کی مقصود ہوتی ہے اور تصاویر کی بیع تبعاً داخل ہے اور تصاویر کا بیع میں تبعاً داخل ہونا ایسی ناقابل انکاربات ہے جس کا کوئی سمجھ دار شخص انکار نہیں کرسکتا کہ تصاویر ان چیزوں میں مبیع نہیں ہیں کہ نہ تو بائع کے خیال میں وہ تصویر مبیع ہے، نہ مشتری کے تصور میں وہ تصویر مبیع ہے، تو حق تصویر میں رکن بیع یعنی مال کا مال سے مبادلہ ہی نہیں پایا گیا، اسی بناء پر زر ثمن کا کوئی جز اس تصویر کے مقابل نہیں ہوتا تو گویا تصویر کی بیع اصالۃ نہیں ہوئی، بلکہ تبعا ہوئی اور اس کی تبعا بیع جائز ہے، اب سائل کا ان عاقدین پر تصویر فروشی اور بیع تصاویر کا الزام صحیح نہیں ہے تو ان چیزوں کی تجارت جائز ثابت ہوئی اور ان پر کوئی الزام شرعی عائد نہیں۔۔ ان اشیاء میں جب بائع اس تصویر کو مبیع سمجھ کر فروخت ہی نہیں کرتا ہے اور نہ مشتری کا مقصود اس تصویر کو خریدنا ہے تو ان ہر دو بائع و مشتری پر کوئی محظور شرعی لازم نہیں آتا۔“ (فتاوٰی اجملیہ، ج 03، ص 468 تا 470، شبیر برادرز)
ان جزئیات سے تصویر والے جوتوں کی بیع کا حکم واضح ہوگیا کہ یہ جائز ہے ،کیونکہ اس میں اصل مقصود جوتے کو بیچنا ہے اور وہ مباح الانتفاع ہے، اسی طرح تصویر والی انگوٹھی کی دوصورتوں کا حکم واضح ہوگیا کہ جب مقصود انگوٹھی کی بیع ہو اور تصویر محض تبعا شامل ہو تو بیع جائز اور جب مقصود تصویر کی بیع ہو اور انگوٹھی محض تبعاً شامل ہو تو بیع ناجائز ہے۔
اب یہاں تیسری صورت باقی رہی کہ انگوٹھی اور تصویر دونوں مقصود ہوں، بایں معنی ٰ کہ خرید و فروخت کے وقت ہی تصویر کی بیع کا بھی ذکر کردیا جائے تو ایسی صورت میں بھی اس شے کی بیع ناجائز کیوں ہے؟
تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جو چیزیں بیع میں تابع ہونے کی وجہ سے داخل ہوجاتی ہیں، اگر ان کا بھی اصل شے کی بیع کے ساتھ ذکر کیا جائے تو وہ بھی مبیع بن جاتی ہیں، چنانچہ شرح مجلہ میں ہے:
إذا كان الشيء الذي يدخل في البيع تبعا أدخل قصدا في البيع أي ذكر في البيع و صرح بدخوله فيه وهلك قبل القبض سقطت حصته من الثمن، لأنه مبيع مقصود
ترجمہ: جو چیز بیع میں تبعاً داخل ہوتی ہے، اگر اس کو بیع میں قصدا داخل کردیا جائے یعنی اس کا بھی بیع میں ذکر کردیا جائے اور بیع میں داخل ہونے کی صراحت کردی جائے اور وہ چیز قبضے سے قبل ہلاک ہو جائے تو اس کے مطابق ثمن کا حصہ ساقط ہوجائے گا، کیونکہ وہ بھی مبیع مقصود ہے۔ (درر الحکام، ج 01، ص 214، مادہ 234، دار الجیل)
لہٰذا جب وہ مبیع بن جائے گی تو اس کیلئے ضروری ہوگا کہ وہ شرعی اعتبار سے صالح للبیع ہو، ورنہ اس کو مبیع بنانا درست نہ ہوگا اور ایسی صورت میں بیع بھی جائزنہیں ہوگی، چنانچہ امام طحاوی علیہ الرحمۃ شرح معانی الآثار میں ایک مسئلہ کے تحت لکھتے ہیں:
أما ما لا يجوز بيعه وحده، فلا يجوز اشتراطه في بيعه لأنه يكون بذلك مبيعا، و بيع ذلك الشيءلا يصلح
ترجمہ: بہرحال وہ شے جس کی تنہا الگ سے بیع جائز نہیں تو اس کو بیع میں شرط کرنا بھی جائز نہیں، کیونکہ وہ اس طرح مبیع بن جائے گی اور اس شے کی بیع شرعا درست نہیں ہے۔ (شرح معانی الآثار، ج 04، ص 26، عالم الكتب)
اور تصویر کو بھی مبیع بنانا درست نہیں، کیونکہ شریعتِ مطہرہ نے ہمیں جاندار کی تصویر کی اہانت کا حکم دیا ہے، چنانچہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں: ”ہمیں اس کی اہانت کا حکم ہے، عنایہ سے گزرا:
نحن امرناباھانتھا
(ہمیں تصویروں کی توہین و تذلیل کا حکم دیا گیا ہے) تو ترکِ اہانت میں ترکِ حکم ہے۔“ (فتاوی رضویہ، ج 24، ص 640، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
جبکہ کسی چیز کو مبیع بنانے کی صورت میں اس کی اہانت نہیں بلکہ اس کا اعزاز اور تعظیم ہوتی ہے، چنانچہ علامہ بابرتی علیہ الرحمۃ ایک مسئلہ کے تحت اس بات کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
أن الشرع أمر بإهانته و ترك إعزازه، و ما أمر الشرع بترك إعزازه لا يكون معزوزا، و في تملكه بالعقد مقصودا:أي يجعله مبيعا إعزاز له و هو خلاف المأمور به
ترجمہ: بلاشبہ شریعت نے خمر کی اہانت اور اس کی عزت نہ کرنے کا حکم دیا ہے اور شریعت جس کی عزت نہ کرنے کا حکم دے دے تو وہ شے قابل تعظیم نہیں رہتی اور عقد کے ذریعے جب یہی مقصود ہو تو اس کا مالک بننے کی صورت میں یعنی اس کو مبیع بنانے کی صورت میں اس کی تعظیم و اعزاز ہے اور یہ مامور بہ حکم کے خلاف ہے۔ (العنایۃ شرح الھدایۃ، ج 06، ص 406، دار الفکر)
یہاں یہ اشکال واقع ہوتا ہے کہ انگوٹھی پر بنی ہوئی تصویر چھوٹی ہوتی ہے، جس کو کھڑے ہوکر زمین پر رکھ کر دیکھیں تو اعضا واضح نہیں ہوتے اور اتنی چھوٹی تصویر معنیٔ بت میں نہیں، لہٰذا اس پر سرے سے تصویر والا حکم لاگو ہی نہیں ہونا چاہئے اور اس کی بیع مقصود بھی ہو تو ناجائز نہیں ہونی چاہئے، چنانچہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ رسالہ عطایا القدیر میں لکھتے ہیں: ”مناط تصویر کا معنئ وثن میں ہونا ہے، ولہٰذا صورت حیوانیہ کی تخصیص ہوئی کہ غیر حیوان کی تصویر بت نہیں، بت ایک صورت حیوانیہ مضاہات لخلق اللہ میں بنائی جاتی ہے تاکہ ذو الصورۃ کیلئے مرآۃ ملاحظہ ہو۔۔ لا جرم سر بریدہ میں ممانعت نہ ہوئی کہ معنئ بت میں نہ رہی اور دست و پا بریدہ ناجائز ہوئی کہ معنی بت میں باقی۔۔ اتنی چھوٹی تصویر کہ نظر میں متمیز نہ ہو، مرآۃ ملاحظہ نہیں کہ آپ ہی زیر ملاحظہ نہیں، یونہی مستور کہ وہ بھی خود ملاحظہ سے مہجور، مرآۃ ملاحظہ ہونا تو اور دور ،اور معنئ بت کو یہ بھی ضرور کہ مشرکین بتوں کو اس لئے بناتے ہیں کہ ان کے آلہہ مزعومہ باطلہ کے مرآۃ ملاحظہ ہوں تو یہاں بھی وہ معنیٰ مفقود۔“ (فتاوٰی رضویہ، ج 24، ص 638،رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
تو اس کا جواب یہ ہے کہ بلاشبہ تصویر ممنوع وہی ہے جو معنی بت میں ہو اور چھوٹی تصویر اس معنیٰ میں نہیں، جیسا کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ نے ذکر فرمایا، لیکن اوپر ذکر کئے گئے جزئیات سے یہ معلوم ہو گیا کہ اس کو قصدا مبیع بنانے میں اس کی تعظیم ہے اورتصویر مستور ہو یا صغیر یا مقطوع ہو، بہر صورت اس کی تعظیم حرام ہے اور کسی قسم کا فعل تعظیم اس کے ساتھ روا نہیں، چنانچہ اسی رسالہ کے آخر میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ اس بات کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”چہارم: صرف ترک اہانت نہ ہو، بلکہ بالقصد تصویر کی عظمت و حرمت کرنااسے معظم دینی سمجھنا، وغیرہ ذلک افعال تعظیم بجالانا۔ یہ سب سے اخبث اور قطعا یقینا اجماعا اشد حرام و سخت کبیره ملعونہ ہے ۔ اسے کسی حال میں کوئی مسلمان حلال نہیں کہہ سکتا، اگرچہ لاکھ مقطوع یا صغیر یا مستور ہو۔ یہ قید یں سب صورتِ سوم تک تھیں۔ قصداً تعظیمِ تصویر ذی روح کی حرمت شدیدہ عظیمہ میں نہ کوئی قید ہے۔ نہ کسی مسلمان کا خلاف متصور۔“ (فتاوٰی رضویہ، ج 24، ص 640، رضا فاونڈیشن لاہور)
دوسرے مسئلے کے جزئیات:
تصاویر جب چھوٹی ہوں یا بڑی ہوں تو مقام تعظیم میں نہ ہو ں، تو ان کا استعمال جائز ہے، امام شمس الائمہ سرخسی علیہ الرحمۃ شرح السیر الکبیر میں لکھتے ہیں:
(و إن كان في خاتمه فص فيه صورة ذي روح فلا بأس بلبسه) لأن هذا يصغر عن البصر، و لا يرى عند النظر إليه من بعيد، و إنما يكره من ذلك ما يرى من بعيد،ثم معنى التعظيم و التشبيه بمن يعبد الصورة لا يحصل في استعماله هذا، و قد بلغنا أن حذيفة بن اليمان رضي اللہ عنه كان على فص خاتمه كركيان بينهما شيء من ذكر اللہ تعالى، و أبو موسى الأشعري رضي اللہ تعالى عنه كان في خاتمه صورة أسد رابض
ترجمہ: اور اگر اس کی انگوٹھی میں ایسا نگینہ ہو جس میں جاندار کی تصویر ہو تو اس انگوٹھی کو پہننے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ یہ تصویر آنکھ سے دیکھنے میں چھوٹی معلوم ہوتی ہے اور دور سے دیکھنے کی صورت میں نظر نہیں آتی، جبکہ تصویر وہی ممنوع ہے جس کو دور سے دیکھا جاسکے پھر اس طرح اس کو استعمال کرنے سے تعظیم اور بتوں کو پوجنے والوں سے مشابہت حاصل نہیں ہوتی اور ہمیں یہ حدیث پہنچی ہے کہ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کی انگوٹھی کے نگینے میں سارس نامی دو پرندوں کی تصویر تھی جن کے درمیان میں اللہ تعالیٰ کے ذکر والے کچھ الفاظ لکھے تھے اور حضرت سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی انگوٹھی میں بھی شیر کی تصویر تھی جو گھٹنوں پر بیٹھا تھا۔ (شرح السیر الکبیر، ج 04، ص 220، دار الکتب العلمیۃ )
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:”جاندار کی تصویر رکھنا تین صورتوں میں جائزہے: ایک یہ کہ چہرہ کاٹ دیا ہو یا بگاڑ دیا ہو۔ دوسرے یہ کہ اتنی چھوٹی ہوکہ زمین پررکھ کر کھڑے ہو کر دیکھیں تو اعضاء کی تفصیل نظرنہ آئے۔ تیسرے یہ کہ خواری و ذلت کی جگہ پڑی ہو جیسے فرش پا انداز میں،ورنہ رکھنابھی حرام، ہاں غیرجاندار مثل درخت ومکان کی تصویر کھینچنا رکھناسب جائزہے۔“ (فتاوٰی رضویہ، ج 24، ص 557، رضا فاونڈیشن، لاہور)
جاندار کی تصویر بنانا بنوانا، مطلقا ناجائز و حرام ہے، اگرچہ وہ بہت چھوٹی ہو یا اہانت والی جگہ استعمال ہو، چنانچہ علامہ سید شامی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:
ما لا يؤثر كراهة في الصلاة لا يكره إبقاؤه، و قدصرح في الفتح وغيره بأن الصورة الصغيرة لا تكره في البيت۔۔ و لو كانت تمنع دخول الملائكة كره إبقاؤها في البيت لأنه يكون شر البقاع، و كذا المهانة كما مر، هذا كله في اقتناء الصورة، و أما فعل التصوير فهو غير جائز مطلقا لأنه مضاهاة لخلق اللہ تعالى كما مر
ترجمہ: جو تصویر نماز میں کراہت پیدا نہ کرے تو اس کو باقی رکھنا بھی مکروہ نہیں اور فتح القدیر اور اس کے علاوہ کتب میں صراحت کی گئی ہے کہ چھوٹی تصویر گھر میں مکروہ نہیں اور اگر یہ فرشتوں کے آنے سے مانع ہوتی تو اس کو گھر میں رکھنا ہی مکروہ ہوتا کہ اس صورت میں گھر تمام خطوں میں بدترین خطہ ہوتا اور اسی طرح معاملہ اس تصویر کا ہے جو موضع اہانت میں ہو جیساکہ پیچھے گزرچکا، یہ تمام احکام تصویر رکھنے کے متعلق ہیں، رہا تصویر بنانا تو وہ مطلقا جائز نہیں، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی مشابہت ہے، جیسا کہ پیچھے گزرا۔ (رد المحتار علی الدر المختار، ج 01، ص 650،دار الفکر، بیروت)
فتاوٰی اجملیہ میں ہے:”کسی ذی روح کی تصویر بنانا حرام ہے ،اب چاہے وہ مجسم ہو یا منقش و منسج ہو۔“ (فتاوٰی اجملیہ، ج 03، ص 468، شبیر برادرز)
مرد کے انگوٹھی پہننے کے متعلق، امام اہلسنت مجدد دین وملت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ’’شرعاًچاندی کی ایک انگوٹھی ایک نگ کی وزن میں ساڑھے چار ماشے سے کم ہو پہننا جائز ہے، اگرچہ بے حاجتِ مہر اس کا ترک افضل اور مہر کی غرض سے خالی جواز نہیں بلکہ سنت۔‘‘ (فتاوی رضویہ، ج 22، ص 141، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: HAB-0555
تاریخ اجراء: 22 شوال المکرم 1446ھ / 21 اپریل 2025ء