Udhar Bai Mein Iqala Hua To Kya Khareedar Qeemat Ada Karega?

ادھار بیع میں اقالہ ہوا تو خریدار پر قیمت دینا لازم ہے؟

مجیب:مولانا محمد سعید عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3492

تاریخ اجراء:21رجب المرجب1446ھ/22جنوری 2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان ِ شرع متین اس مسئلے میں کہ     میں نے کبوتر ادھار خریدا، جس سے خریدا وہ اب کہہ رہا ہے کہ یہ کبوتر بیمار ہے مجھے واپس کردو تاکہ میں نے جس سےلیا ہے اس کو واپس کردوں، میں نے اس کو کبوتر واپس کردیا، تو کیا اب مجھے اس کے پیسے دینے پڑیں گے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جب آ پ نے بیچنے والے کی رضا مندی سے وہ کبوتر اسے  واپس کردیا تو یہ دونوں کے درمیان پہلے کیے گئے خریدوفروخت کے ایگریمنٹ کوختم کرنا ہوا، اور خریدوفروخت کا ایگریمنٹ اسی قیمت پر ختم ہوتا ہے، جس پر خریدوفروخت ہوئی تھی، لہٰذا اب آپ پر کبوتر  کےپیسے دینا لازم نہیں۔

   اقالہ کی تعریف الجوھرۃ النیرۃ میں یہ بیان ہوئی:” اقالة في اللغة هي الرفع، وفي الشرع عبارة عن رفع العقد“ ترجمہ : اقالہ کا لغوی معنی کسی چیز کو اٹھانا ہے اور شرع میں اس سے مراد عقد کو ختم کرنا ہے۔(الجوهرة النيره، ج1، ص207، مطبوعه المطبعة الخيريه، بیروت)

   اقالہ میں باہمی رضامندی کے شرط ہونے کے متعلق فتاوی ہندیہ میں ہے  ”وشرط صحۃ الاقالۃ ،رضا المتقائلین“ ترجمہ: اقالہ کے صحیح ہونے کی شرائط میں سےایک شرط متقائلین(یعنی اقالہ کرنے والے دونوں افراد)کا رضا مند ہونا ہے۔(الفتاوی الھندیہ،ج3،ص157،دارالفکر،بیروت)

   اقالہ کے متعلق ہدایہ شریف میں ہے: ”الاقالة جائزة فى البيع بمثل الثمن الاول۔۔۔ والأصل ان الاقالۃ فسخ فی حق المتعاقدین“ ترجمہ : پہلے ثمن کی مثل کے بدلےبیع میں اقالہ (یعنی عقدِ بیع ختم کرنا) جائز ہے۔۔۔ اوراصل یہ ہے کہ اقالہ عاقدین کے حق  میں سودے کا فسخ کرناہے۔(الهدايۃ، باب الاقاله، ج3، ص55، مطبوعه دار احياء التراث العربي، بيروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم