واپس لینے کی شرط پر کوئی چیز بیچنا کیسا؟

اس شرط کے ساتھ مکان بیچنا کیسا کہ تم سے واپس میں ہی خرید لوں گا؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:HAB-0517

تاریخ اجراء:19 شعبان المعظم     1446 ھ/18 فروری     2025 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ مجھے اپنے قرض کی ادائیگی کیلئے پچاس لاکھ روپے کی حاجت تھی، تو میں نے اپنا مکان جو سیکٹر 11 ایف  کراچی میں موجود تھا  اور اس کی مالیت تقریبا ً 60 سے 65 لاکھ کی تھی، اپنے کزن کو  ضرورت کی وجہ سے 55 لاکھ کا بیچ دیا  اور  اس میں  یہ  معاہدہ طے ہوا کہ  میں  آپ کو یہ 55 لاکھ دوبارہ دوں گا تو اس وقت آپ مجھے یہ مکان واپس کردینا، اس دوران آپ اس میں رہ سکتے ہو، اب اس بات کو تقریبا تین ماہ کا عرصہ ہوچکا ہے۔ حال ہی میں کاروباری مسائل کے  متعلق ایک آن لائن  سیشن ہوا جس میں، میں نے شرکت کی، اس میں مجھے معلوم ہوا کہ یہ طریقہ شرعاً ناجائز ہے۔ مجھے یہ پوچھنا ہے کہ کیا واقعی یہ ناجائز ہے؟ اس کی وجہ کیا ہے؟ برائے کرم اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں آپ نے جو اپنے کزن سے معاہدہ کیا، وہ واقعی ناجائز و گناہ تھا ،کیونکہ  بیع میں ذکر کئے گئے اس معاہدہ سے یہ بات ظاہر ہے کہ آپ کا مقصد اپنے کزن کو گھر بیچنا نہیں تھا بلکہ اپنے قرض کی ادائیگی کیلئے مطلوبہ رقم  لینا اور اس کے بدلے کزن کو وقتی طور کیلئے گھر دینا تھا   اور یہ شرعی نقطہ نظر  سے  بیعِ وفا  ہے  جو صحیح و  معتمد قول کے مطابق رہن ہوتی ہے، لہٰذا جب یہ رہن ہے، تو آپ کے کزن کیلئے اس  میں رہائش کرکے نفع حاصل کرنا جائز نہیں تھا کہ اس طرح    رہن سے نفع حاصل کرنا ناجائز و گناہ  اور سود ہے اور یہ معاہدہ  بھی  اسی   وجہ سے ناجائز و گناہ ٹھہرا۔

   نیز اگر اس کو عام طور پر کی جانے والی بیع کی طرح ایک بیع قرار دیا جائے تب بھی یہ جائز نہیں، کیونکہ یہ شرط  کہ رقم واپس کرنے پر مکان بھی واپس کرنا ہوگا، بلاشبہ مقتضائے عقد کے خلاف  ہے جس پر عرف بھی نہیں ہے، لہٰذا اس کی وجہ سے یہ بیع فاسد ہوئی، جس کو ختم کرنا آپ دونوں میں سے ہر ایک پر لازم ہے۔

   بیع وفا کے متعلق، درمختار و رد المحتار میں ہے :”(و بيع الوفاء أن يبيعه العين بألف على أنه إذا رد عليه الثمن رد عليه العين)وجه تسميته بيع الوفاء أن فيه عهدا بالوفاء من المشتري بأن يرد المبيع على البائع حين رد الثمن۔۔ و  في الكفاية عن المحيط: هو أن يقول البائع للمشتري بعت منك هذا العين بما لك علي من الدين على أني متى قضيته فهو لي“ ترجمہ: اور بیع وفا  یہ ہے کہ  کسی نے ہزار  کے بدلے کوئی چیز کسی کو بیچی  اس شرط پر کہ  جب  اس کو ثمن لوٹایا جائے گا  تو اس کو  وہ چیز واپس کی جائے گی، اس کو بیع وفا کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں مشتری سے وفا کا عہد لیا جاتا ہے کہ  وہ بائع کے ثمن لوٹانے پر مبیع اس کو واپس کردے گا اور کفایہ میں محیط سے ہے کہ بیع وفا یہ ہے کہ بائع مشتری سے یہ کہے کہ  میں نے تم کو یہ چیز  اس قرض کے بدلے بیچی  جو تمہارا میرے اوپر لازم ہے لیکن اس شرط کے ساتھ جب میں تم کو یہ قرض لوٹاؤں گا  تو یہ چیز واپس میری ہوجائے گی۔ (الدر المختار مع رد المحتار، ج 05، ص 276، دار الفکر)

   اس کے احکام بیان کرتے ہوئے، علامہ شامی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں :”و في حاشية الفصولين عن جواهر الفتاوى: هو أن يقول بعت منك على أن تبيعه مني متى جئت بالثمن فهذا البيع باطل و هو رهن، و حكمه حكم الرهن و هو الصحيح“ ترجمہ: اور حاشیہ فصولین میں جواہر الفتاوٰی سے منقول ہے  کہ  بیع وفا یہ ہے کہ بائع کہے کہ میں نے یہ چیز تم کو بیچی  اس شرط پر کہ جب میں  تم کو ثمن  واپس کروں گا تو تم مجھے مبیع واپس کردینا تو یہ بیع باطل ہے  اور یہ  رہن  ہے  اور اس کا حکم رہن والا ہی ہے ،یہی صحیح قول ہے۔(رد المحتار، ج 05، ص 276، دار الفکر)

   اعلیٰ حضرت امام اہلسنت علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں :”و الذی تقرر و تحرر ان بیع الوفاء رھن لایزید علیہ بشيئ و لا یخالفہ فی شیئ قال العلامۃ خیر الدین رملی فی فتاواہ: الذی علیہ الاکثر انہ رھن لا یفترق عن الرھن فی حکم من الاحکام۔۔ فاذن لا یجوز لھذا الذی ھو مشتر صورۃ مرتھن معنی الانتفاع بمشریہ المرھون مطلقًا علی ما ھو الفتوی الآن للعلم بمقاصد اھل الزمان وقد علم شرعا ان المعھود عرفا کالمعھود شرطا“ ترجمہ: اور جو بات ثابت شدہ اور محقق ہے  وہ یہ ہے کہ بیع الوفاء رہن ہے نہ اس سے کچھ زائد اورنہ ہی کسی شے میں اس کے مخالف ہے، علامہ خیرالدین رملی نے اپنے فتاوٰی میں فرمایا کہ اکثر فقہاء اسی پر ہیں کہ یہ رہن ہے اور کسی حکم میں رہن سے جدا نہیں ہے، تو جب یہ  رہن ہے تو اس شخص کے لئے جو بظاہر مشتری اور درحقیقت مرتہن ہے بالکل جائز نہیں کہ وہ اس خریدی ہوئی مرہونہ شے سے نفع حاصل کرے اور اب اہل زمانہ کے مقاصد کو جانتے ہوئے اسی پر فتوی ہے، اور تحقیق یہ بات شرعا معلوم ہے کہ جو چیز عرف میں طے شدہ ہو وہ ایسے ہی ہوتی ہے جیسے اس کی شرط لگائی گئی ہو۔ (فتاوٰی رضویہ، ج 17، ص 644، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   بہار شریعت میں ہے :”بیع الوفا حقیقت میں   رہن ہے لوگوں  نے رہن کے منافع کھانے کی  یہ ترکیب نکالی ہے کہ بیع کی  صورت میں   رہن رکھتے ہیں  تاکہ مرتہن اُس کے منافع سے مستفید ہو۔ لہٰذا رہن کے تمام احکام اس میں   جاری ہوں  گے ۔۔فقیر نے صرف اُس قول کو ذکر کیا کہ یہ حقیقت میں   رہن ہے کہ عاقدین کا مقصود اسی کی  تائید کرتا ہے اور اگر اس کو بیع بھی قرار دیاجائے جیسا کہ اس کا نام ظاہر کرتا ہے اور خود عاقدین بھی عموماً لفظ بیع ہی سے عقد کرتے ہیں  تو یہ شرط کہ ثمن واپس کرنے پر مبیع کو واپس کرنا ہوگا یہ شرط بائع کے لیے مفید ہے اور مقتضائے عقد کے خلاف ہے اور ایسی شرط بیع کو فاسد کرتی ہے جیسا کہ معلوم ہوچکا ہے اس صورت میں   بھی بائع ومشتری دونوں  گنہگاربھی ہوں  گے اور مبیع کے منافع مشتری کے لیے حلال نہ ہوں  گے۔“ (بھار شریعت، ج02 ، ص835 ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم