کیا زمین بیچ کر کاروبار کرسکتے ہیں؟ ایک حدیثِ پاک کی شرح

زمین بیچ کر کاروبار کرنا کیسا ؟ ایک حدیثِ پاک کی شرح

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارےمیں کہ ہم دو بھائیوں نے اپنی وراثتی زمین بیچ کر اس سے حاصل ہونے والی رقم آپس میں تقسیم کر لی ہے۔ اب میرا ارادہ ہے کہ میں اس رقم سے ٹرانسپورٹ کا کاروبار کروں۔ جب لوگوں کو میرے ارادے کے متعلق معلوم ہوا، تو کہنے لگے کہ سنی سنائی بات ہے کہ زمین کو نہیں بیچنا چاہیے۔ اس وجہ سے میں کافی پریشان ہوں کہ میں اپنا کاروبار شروع کر وں یا نہیں؟ برائے کرم میری رہنمائی فرمائیے کہ اس بات کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

آپ زمین بیچ کر حاصل ہونے والی رقم سے ٹرانسپورٹ کا کاروبار کر سکتے ہیں، شرعا کوئی ممانعت نہیں ہے۔زمین کو نہ بیچنے کےمتعلق حدیث پاک موجود ہےجس کا مفہوم ہے کہ جو بلا ضرورت اپنی زمین بیچ دے، اس کے مال میں برکت نہیں رہتی۔ایک اور حدیث پاک میں بلا ضرورت کا ذکر نہیں۔ اس حدیث پاک کی شرح بیان کرتے ہوئےمحدثین کرام فرماتے ہیں کہ اگر ضرورت کی وجہ سے زمین کو بیچا جائے، تو کوئی حرج نہیں۔ بے برکتی والا یا مال تباہ ہونے والا حکم اس وقت ہے جب زمین کو بلاضرورت بیچ کر اس سے حاصل ہونے والی رقم کو کسی دوسرے کام میں خرچ کیا جائے۔ تاہم زمین کو بلا ضرورت بیچنا بھی جائز ہے، گناہ نہیں۔

ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے ملک کا ایک بہت بڑا طبقہ وہ ہے جو محض محنت مزدوری کرتا ہے، کاروبار کرنا اسے بالکل بھی نہیں آتا۔ اس کے علاوہ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ وراثتی زمین تقسیم ہونے کی دیر ہوتی ہے کہ حاصل ہونے والی رقم کو بہت سارے لوگ غلط منصوبہ بندی اور نا تجربہ کاری کی وجہ سے ضائع کر کے بعد میں رو رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ اس رقم کو سہولت اور دکھاوے والے کاموں میں لگا کر خالی ہاتھ ہو جاتے ہیں۔ کچھ وہ بد نصیب ہوتے ہیں جو ناجائز اور حرام کاموں میں پیسہ اڑا دیتے ہیں ،یہ سب ہمارے معاشرے میں آنکھوں دیکھی باتیں ہیں۔

اس کے بر عکس جو زمین کو روک کررکھتا ہے، وقت کے ساتھ ساتھ اس کی قیمت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ایک غریب کسان بھی اپنی زمین پر کھیتی باڑی کر کے گزر بسر کرتا رہتا ہے۔ اضافی رہائشی گھر ہو تو بندہ اسے کرایہ پر دے کر آمدنی حاصل کرتا رہتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی قیمت بھی بڑھتی رہتی ہے۔

یہ سب باتیں وہ ہیں جو غالب طور پر پائی جاتی ہیں اور اسی بنیاد پر احادیث میں زمین بیچ کر اشیائے منقولہ خریدنے کے بجائے زمین ہی خریدنے کی ترغیب دی ہے۔ اس کے علاوہ زمین کے مقابل دیگر چیزیں خریدنے کی جو آفات شارحین حدیث نے بیان فرمائیں، وہ جدا ہیں یعنی چوری ہونا، دھوکہ دہی کے امکانات وغیرہ۔

البتہ بعض لوگ وہ ہوتے ہیں جو زمین کے نفع سے یا جدا گانہ رقم سے کاروبار و تجارت شروع کرتے ہیں، اس میں بہت آگے بڑھ جاتے ہیں، پھر وہ زمین کو بیچ کر بھی کاروبار میں رقم لگانا چاہتے ہیں تو جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ ناجائز ہونے کا معاملہ تو سرے سے یہاں ہے ہی نہیں ۔ معاملہ برکت ہونے یا نہ ہونے کا ہے۔ تجارت کو بھی اللہ تعالی نے اپنا فضل قرار دیا ہے۔ سورۂ جمعہ میں جو مضمون بیان ہوا، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اذان جمعہ کے بعد سے اپنے کاروبار بند کر دو اور جب جمعہ سے فارغ ہو جاؤ، تو اللہ تعالی کا فضل تلاش کرو یعنی تجارت کے ذریعے اللہ تعالی کا فضل تلاش کرو۔

اللہ عزوجل ارشادفرماتا ہے:

﴿اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِاللّٰهِ وَ ذَرُوا الْبَیْعَؕ        ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (۹) فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَ ابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ﴾

 ترجمہ کنزالایمان: جب نماز کی اذان ہو جمعہ کے دن، تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔ یہ تمہارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانو۔پھر جب نماز ہوچکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔ (پارہ28، سورۃ الجمعۃ، آیت10،9)

لہٰذا اگر کسی تاجر کو زمین بیچ کراس کی رقم تجارت میں لگانے کی ضرورت ہو ، اور اسے اپنے کاروبار میں خاصہ تجربہ بھی ہو، اس کی لائن بھی اچھی ہو تو رقم کو تجارت میں لگانا، کوئی حرج نہیں رکھتا۔

زمین بیچنے کے متعلق کنزالعمال کی ایک حدیث پاک ہے:

”من باع عقر دار من غير ضرورة سلط الله على ثمنها تالفا يتلفه“

یعنی جو شخص بلا ضرورت اپنا گھر بیچ دے اللہ تعالی اس پر ایسی آفت مسلط فرمائے گا جو اس مال کو تباہ کر دے گی۔ (کنزالعمال، جلد3، صفحہ51، حدیث5442،بیروت)

اسی طرح ایک اور حدیث پاک ہے:

”عن سعيد بن حريث قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من باع دارا او عقارا فلم يجعل ثمنه في مثله كان قمنا ان لا يبارك فيه“

 یعنی حضرت سعید بن حریث رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو گھر یا زمین بیچے اور حاصل ہونے والی رقم کو اسی کی مثل میں نہ لگائے، تو وہ رقم اس لائق ہے کہ اسے برکت نہ دی جائے۔ (سنن ابن ماجہ،صفحہ577، حدیث2490، بیروت)

اس طرح کی احادیث مبارکہ کی تشریح بیان کرتے ہوئے مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

”ای للبائع من غیر ضرورۃ“

 یعنی بے برکتی والا حکم اس وقت ہے، جب کوئی شخص بلا ضرورت اپنی زمین بیچ دے۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد6، صفحہ 148،تحت الحدیث2966، بیروت)

ایک حدیث پاک کے تحت مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

”قال المظهر: يعني بيع الاراضي والدور وصرف ثمنها الى المنقولات غير مستحب لانها كثيرة المنافع قليلة الآفة لا يسرقها سارق ولا يلحقها غارة بخلاف المنقولات فالاولى ان لا تباع وان باعها فالاولى صرف ثمنها الى ارض او دار“

یعنی علامہ مظہر کہتے ہیں کہ زمین اور گھروں کو بیچنا اور حاصل ہونے والی رقم کو غیر منقولی اشیاء میں استعمال کرنا پسندیدہ نہیں، کیونکہ زمین سے بہت منافع حاصل ہوتے اور اس کی آفتیں بھی کم ہوتی ہیں۔ زمین کو نہ تو چور، چوری کر سکتا ہے اور نہ کوئی ڈاکو لوٹ سکتا ہے لہذا بہتر یہی ہے کہ زمین نہ بیچی جائے۔ اگر بیچنی پڑ جائے، تو اس سے حاصل ہونے والی رقم کو زمین یا گھر کی خریداری میں ہی استعمال کرنا اولی ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد6، صفحہ 148،تحت الحدیث2966، بیروت)

مرآۃ المناجیح میں ہے: ”یہ فرمان عالی بالکل برحق ہے جس کا تجربہ بہت ہی کیا گیا ہے کہ زمین کا پیسہ اگر زمین میں نہ لگایا جائے تو ہوا کی طرح اڑ جاتا ہے۔ چاہیے کہ زمین فروخت ہی نہ کرے اور اگر کرے تو زمین ہی میں لگائے۔ ہم نے بہت لوگ بعد میں روتے دیکھے۔ یہاں مرقات نے فرمایا کہ غیرمنقولی چیز کی قیمت منقولی چیزوں میں لگانا بہتر نہیں کہ غیر منقولی چیزیں نفع میں زیادہ ہیں آفات میں کم کہ انہیں نہ چور چرا سکے نہ ڈاکو لے جاسکے بلکہ زمین وغیرہ کا بیچنا ہی بہتر نہیں۔“  (مرآۃ المناجیح، جلد4، صفحہ355، قادری پبلشرز، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب : مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:  Gul- 2612

تاریخ اجراء:  13 صفر المظفر 1444  ھ/10 ستمبر 2022 ء