پرندوں کی خرید و فروخت میں کمی بیشی کرنے کا شرعی حکم

پرندوں کا کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ کرنا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا پرندوں کا کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ کرنا جائز ہے مثلا ایک اچھی نسل کے طوطے کے بدلے میں زیادہ تعداد میں کبوتر دینا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

ایک اچھی نسل کے طوطے یا کسی اور پرندے کو دوسرے کئی پرندوں کے بدلے میں بیچنا جائز ہے کیونکہ پرندوں کوناپ یا تول کر نہیں بلکہ تعداد کے اعتبار سے خریدا اور بیچا جاتا ہے اور عددی ہونے سے سود پائے جانے کی ایک علت ختم ہو جاتی ہے۔ البتہ اگر ایک ہی جنس کے پرندوں کو کمی بیشی سے خریدا یا بیچا جائے تو ادھار کرنے کی اجازت نہیں۔

حضرت سیدنا جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ و اٰلہٖ و سلَّم نے ارشاد فرمایا:

الحيوان اثنان بواحد لا يصلح نسيئا، و لا بأس به يدا بيد

ترجمہ: ایک جانور کو دو کے بدلے میں ادھار بیچنا جائز نہیں اور ہاتھوں ہاتھ بیچنے میں حرج نہیں۔ (ترمذی، 3/19، حدیث: 1242)

شمس الائمہ سرخسی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:

فإن الجنس عندنا يحرم النساء بانفراده

ترجمہ : ہمارے نزدیک صرف جنس ایک ہونا بھی ادھار کو حرام کر دیتا ہے۔ (المبسوط للسرخسی، جز 12، 6/143)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری

تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضان مدینہ اکتوبر/ نومبر 2018ء