سرمایہ برابر ہو تو نفع کا شرعی حکم

سرمایہ برابر ہو تو کیا نفع برابر ہونا ضروری ہے؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ دو افراد نے مل کر یوں پارٹنرشپ کی ہے کہ دونوں نے برابر برابر (Equal) انویسٹمنٹ کی ہے۔ ان میں سے ایک فریق کام کرتا ہے وہ پچھتر فیصد (75%) نفع (Profit) لیتا ہے اور جو کام نہیں کرتا وہ پچیس فیصد (25%) نفع لے رہا ہے۔ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

جی ہاں! پوچھی گئی صورت میں باہمی رضامندی (Mutual Understanding) سے کام کرنے والے کے لئے نفع کا ریشو زیادہ رکھ سکتے ہیں۔اس میں کوئی حرج نہیں۔ بہارِ شریعت میں ہے: ”اگر دونوں نے اس طرح شرکت کی کہ مال دونوں کا ہوگا مگر کام فقط ایک ہی کرے گا اور نفع دونوں لیں گے اور نفع کی تقسیم مال کے حساب سے ہوگی یا برابر لیں گے یا کام کرنے والے کو زیادہ ملے گا تو جائزہے اور اگر کام نہ کرنے والے کو زیادہ ملے گا تو شرکت ناجائز۔“ (بہارِ شریعت، ج 2، ص 499)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری

تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضان مدینہ جمادی الاولی 1441ھ