
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
اگر ٹھیکیدار لیبر(Labor) کے پیسے کھا جائے تو کیا ٹھیکیدار کا کوئی سامان اٹھا کر لے جاسکتے ہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
دریافت کی گئی صورت میں بہتر یہ ہے کہ ٹھیکیدار سے ہی کلیم(Claim) کریں اس کے پاس جائیں اسے بار بار یاد دلائیں اور اس سے تقاضا کریں۔ورنہ اگر اس کو بتائے بغیر اس کی چیز اٹھالیں گے تواول تو اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ جو چیز آپ اٹھائیں وہ اتنی ہی مالیت کی ہو جتنے پیسے آپ کے باقی ہیں، دوسری بات یہ ہے کہ اس طرح چیز اٹھانے کو لوگ یہی کہیں گے کہ آپ نے چوری کی ہے، وہ یہ نہیں سمجھیں گے کہ جو پیسے دینا باقی رہ گئے تھے اس کے عوض میں یہ چیز لی ہے، یوں آپ کے اوپر تہمت آئے گی۔ لہٰذا اس طریقے سے خود بخود معاملہ ڈیل (Deal) نہ کریں یہی زیادہ بہتر ہے بلکہ جس کے پاس پیسے ہیں اسی سے تقاضا کریں یوں چوری چھپے چیزیں لے جانے سے فساد کا دروازہ کھلے گا۔ البتہ اصل حکم یہ ہے کہ اگر کسی نے دوسرے پر نکلنے والے اپنے مالی حق کو جائز راستے سے وصول کیا تو آخرت میں اس پر گرفت نہ ہوگی۔ چنانچہ فتاویٰ رضویہ جلد اول پر حاشیہ میں موجود فوائد کے تحت یہ مسئلہ لکھا ہے: ”جس کے کسی پر مثلاً سو روپے آتے ہوں کہ اس نے دبالئے یا اورکسی وجہ سے ہوئے اور اسے اس سے روپیہ ملنے کی امید نہیں تو سو روپے کی مقدار تک اس کا جو مال ملے لے سکتا ہے۔ آج کل اس پر فتویٰ دیا گیا ہے مگر سچے دل سے بازار کے بھاؤ سے سو ہی روپے کا مال ہو، زیادہ ایک پیسہ کا ہو تو حرام دَر حرام ہے۔“ (فتاویٰ رضویہ، ج 1، ص 167)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری
تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضان مدینہ ذو القعدۃ الحرام 1440ھ