
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ میرا تعلق مجلسِ تجہیز و تکفین سے ہے، مجھے چند سوالوں کے جوابات درکار ہیں:
(1) میت کو دو بار غسل دینا ہو گا یا ایک بار ہی کافی ہے اور اگر پہلے غسل کے بعد کوئی نجاست ظاہر ہو، تو کیا پھر سے غسل دینا ہو گا؟
(2) میت کے منہ میں جو مصنوعی دانت لگائے جاتے ہیں، میت کو غسل دیتے وقت وہ نکالنے ہوں گےیا باقی رہنے دئیے جائیں؟
(3) میت کو غسل دیتے وقت غیر ضروری بال کاٹنے کا کیا حکم ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
(1) جب کوئی شخص فوت ہو جائے، تو تین مرتبہ پانی بہایا جائے اور یہ ایک غسل کہلائے گا۔ اس اعتبار سے اسے ایک ہی غسل دیا جائے، دوسری بار غسل دینا فضول ہے، کیونکہ ایک بار غسل دینے کے بعد دوبارہ غسل کی مطلقاً کسی حال میں حاجت نہیں، حتی کہ اگر بعدِ غسل کوئی نجاست بر آمد ہو، تو بھی نئے سرے سے غسل نہ دیا جائے، بلکہ صِرف اس نجاست کو دھو دیا جائے، یہی کافی ہے۔
اللباب فی شرح الکتاب میں ہے:
فان خرج منہ شیء غسلہ لازالۃ النجاسۃ عنہ ولا یعید غسلہ ولا وضوءہ، لانہ لیس بناقض فی حقہ
ترجمہ: غسل کے بعد میت کے بدن سے کوئی چیز خارج ہو، تو اسے دھو دیا جائے تاکہ اس سے نجاست زائل ہو جائے اور وضو و غسل کا اعادہ نہیں کیا جائے گا، کیونکہ یہ میت کے حق میں ناقض نہیں‘‘۔(اللباب فی شرح الکتاب، کتاب الصلوۃ، باب الجنائز، جلد 1، صفحہ 127، مطبوعہ بیروت)
امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ مختلف سوالات کے جواب میں فرماتے ہیں: غسل ایک دیا جائے گا،۔۔۔ غسل دوبارہ دینے کی مطلقاً کسی حال میں حاجت نہیں، اگر نجاست بر آمد ہو، دھو دی جائے۔ (فتاوی رضویہ، جلد 9، صفحہ 98، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
صدر الشریعہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ سے پوچھا گیا کہ بعض کہتے ہیں: میت کو تین غسل دینے چاہئیں، یہ صحیح ہے یا غلط؟ تو جواباً ارشاد فرمایا: تین مرتبہ ہر جگہ سے پانی بہایا جانا سنت ہے اور یہ ایک غسل ہے۔ تین غسل دینے کا اگر یہی مطلب ہے، تو خیر، ورنہ لغو۔(فتاوی امجدیہ، حصہ 1، صفحہ 331، مکتبہ رضویہ، آرام باغ، کراچی)
(2) منہ میں دو طرح کے مصنوعی دانت لگائے جاتے ہیں:
(۱) وہ دانت جوسرجری کے بعد مضبوط طریقے سے مستقل طور پہ فٹ کر دئیے جاتے ہیں اور انہیں بغیر تکلیف کے نکالنا ممکن نہیں ہوتا، ایسے دانت میت کے منہ میں لگے ہوں، تو انہیں نہیں نکالا جائے گا، کیونکہ انہیں نکالنے سے میت کو اذیت ہو گی اور میت کو بلا وجہ شرعی اذیت دینا منع ہے۔
(۲) دوسرے وہ دانت جو منہ میں اس انداز سے فٹ کئے جاتے ہیں کہ جب چاہیں بآسانی نکالے جا سکتے ہیں اور جب چاہیں لگا سکتے ہیں، ایسے دانت لگےمیت کے منہ میں ہوں، تو انہیں نکال لیا جائے۔
جس چیز سے زندہ کو ایذا پہنچتی ہے، اس سے مردے کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔ در مختار میں ہے:
ان المیت یتاذی بما یتاذی بہ الحی
ترجمہ گزر چکا۔ (رد المحتار، کتاب الطہارۃ، فصل فی الاستنجاء، جلد 1، صفحہ 612، مکتبہ حقانیہ، پشاور)
اور میت کو بلا وجہ اذیت دینا منع ہے، چنانچہ حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
کما اکرہ اذی المومن فی حیاتہ، فانی اکرہ اذاہ بعد موتہ
ترجمہ: میں جس طرح مسلمان کی ایذا اس کی زندگی میں مکروہ جانتا ہوں، یونہی بعدِ موت اسے ایذا دینے کو ناپسند کرتا ہوں‘‘۔ (شرح الصدور بشرح حال الموتی والقبور، صفحہ 292، دار المعرفۃ، لبنان)
جن چیزوں کی میت کوحاجت نہیں اور انہیں بآسانی میت کے جسم سے جدا کرسکتے ہوں،تو انہیں جدا کر لیا جائے گا۔ جیسا کہ شہید کے متعلق بدائع الصنائع میں ہے:
ینزع عنہ الجلد والسلاح والفرو والحشو والخف والمنطقۃ والقلنسوۃ۔۔ وھذا لان ما یترک یترک لیکون کفناً والکفن ما یلبس للستر وھذہ الاشیاء تلبس اما للتجمل و الزینۃ او لدفع البرد او لدفع معرۃ السلاح ولاحاجۃ للمیت الی شیء من ذلک
ترجمہ: شہید کے جسم سے کھال، اسلحہ، پوستین، روئی کا کپڑا، موزے، کمر پر باندھا جانے والا پٹکا اور ٹوپی اتار لی جائے گی اور یہ حکم اس لئے ہے ، کیونکہ شہید کے جسم پر جو کپڑے باقی رکھے جاتے ہیں ،وہ اس لئے رکھے جاتے ہیں، تاکہ وہ کفن ہو جائیں اور کفن وہ ہوتا ہے جو ستر چھپانے کے لئے پہنایا جاتا ہے اور یہ چیزیں خوبصورتی و زینت حاصل کرنےیاٹھنڈک دور کرنےیااسلحے کے نقصان کو دور کرنے کے لئے پہنی جاتی ہیں اور میت کو ان میں سے کسی چیز کی بھی حاجت نہیں رہی۔ (بدائع الصنائع، جلد 2، صفحہ 73، مطبوعہ کوئٹہ)
اور اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ مرنے کے بعد مصنوعی دانت نکالنا چاہئے یا نہیں؟ تواس کے جواب میں ارشاد فرمایا:نکال لینا چاہئے، اگر کوئی تکلیف نہ ہو۔ (ملفوظات اعلی حضرت، صفحہ 358، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
(3) میت کے بال کاٹنا مکروہ تحریمی، ناجائز و گناہ ہے کہ یہ زینت ہےاور میت زینت کا محل نہیں ہے۔
بدائع الصنائع میں ہے:
لا تقص أظفاره وشاربه ولحيته ولا يختن ولا ينتف إبطه ولا تحلق عانته ولأن ذلك يفعل لحق الزينة والميت ليس بمحل الزينة ولهذا لا يزال عنه شيء
ترجمہ: میت کے ناخن اور داڑھی مونچھوں کے بال نہ تراشے جائیں، نہ ختنہ کیا جائے، نہ بغل کے بال اکھاڑے جائیں اور نہ ہی موئے زیر ناف کاٹے جائیں، کیونکہ یہ کام میت کے حق میں زینت ہیں اور میت زینت کا محل نہیں، اسی لئے اس سے کوئی چیز زائل نہیں کی جائے گی۔(بدائع الصنائع، کتاب الجنائز، فصل بیان کیفیۃ الغسل للمیت، جلد 2، صفحہ 26، مطبوعہ کوئٹہ)
بہار شریعت میں ہے:میت کے داڑھی یا سر کے بال میں کنگھا کرنا یا ناخن تراشنا یا کسی جگہ کے بال مونڈھنا یا کترنا یا اکھاڑنا، ناجائز و مکروہ تحریمی ہے۔ (بہار شریعت، حصہ 4، صفحہ 816، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: ابو تراب محمد علی عطاری
مصدق: مفتی محمدقاسم عطاری
فتوی نمبر: PIN-7619
تاریخ اجراء: 05صفر المظفر1447ھ/31 جولائی 2025ء