میت کو جنازہ گاہ لے جاتے ہوئے بار بار زمین پر رکھنا کیسا؟

میت کو تدفین کے لیے لے جاتے ہوئے بار بار زمین پر رکھنا

دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

ہمارے ہاں ایک رسم ہے، کہ جب میت کو جنازہ گاہ کی طرف لے کر جاتے ہیں، تو چند قدم اٹھا کر چلتے ہیں، پھر نیچے رکھ دیتے ہیں، پھر چند قدم میت کو لے جا کر رکھ دیتے، اور اسی طرح کرتے کرتے جنازہ گاہ تک جاتے ہیں، اور اس سے ان کا نظریہ، یہ ہوتا ہے کہ اس سے ہم میت کو چہل قدمی کرا رہے ہیں۔ تو ایسا کرنا کیسا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

میت کو چہل قدمی کروانے والی مذکورہ رسم کی شریعت میں کوئی اصل نہیں، جتنا وقت اس فضول و عبث کام میں لگائیں گے، اتنی بلاوجہ شرعی تاخیر ہوگی، جبکہ شریعت میں تدفین میں جلدی کرنے کا حکم ہے، اسی وجہ سے بلا وجہ شرعی تاخیر کرنا مکروہ وممنوع ہے، لہذا یہ رسم بھی مکروہ وممنوع ہے، اور اگر اس رسم کو لازم و واجب سمجھ کر کرتے ہیں، تو یہ سخت ناجائز ہے کہ شریعت پر افترا بھی ہے۔

میت کی تدفین میں جلدی کرنے کا حکم ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، آپ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ سلم نے ارشاد فرمایا:

اسرعوا بالجنازۃ، فان تک صالحۃ فخیر (لعلہ قال) تقدمونھا علیہ و ان تک غیر ذٰلک فشر تضعونہ عن رقابکم

یعنی: جنازہ کو دفن کرنے میں جلدی کرو، کہ اگر وہ نیک ہے، تو ایک اچھی چیز ہے، جس کی طرف تم اس کو لے کر جا رہے ہو، اور اگر وہ نیک نہیں ہے، تو ایک بری چیز ہے، جسے تم اپنی گردن سے اتار رہے ہو۔ (صحیح مسلم، صفحہ338، حدیث: 50 - (944)، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

تدفین میں تاخیرکے حوالے سےمحیط برھانی میں ہے

لو لم يكن في نقله إلا تأخير دفنه لكان كافياً في كراهته

ترجمہ: میت کے منتقل کرنے میں تاخیر کے سوا اگر کوئی اوروجہ نہ ہو تو یہی ایک وجہ اس کے مکروہ ہونے کے لیے کافی ہے (المحیط البرھانی، ج 05، ص 360، دار الکتاب العلمیۃ، بیروت)

فتاوی رضویہ میں ہے "بالجملہ عباراتِ فقہاء صرف دو صورتوں سے متعلق ہیں: ایک بعد نمازجنازہ اسی ہیئت پر بدستور صفیں باندھے وہیں کھڑے دُعا کرنا۔ دوسرے قبل نماز خواہ بعد نماز دعائے طویل کی خاص غرض سے امر تجہیز کو تعویق میں ڈالنا۔ ظاہراً اس صورت میں کراہت تحریمی تک ہوسکتی ہے اورصورت اولٰی میں تنزیہی۔" (فتاوی رضویہ، ج 09، ص 256، رضافاؤنڈیشن، لاہور)

مفتی احمدیارخان نعیمی علیہ الرحمۃ تحریرفرماتے ہیں: "کسی قرابت دار کے آنے کے انتظار میں میت کے دفن میں دیر لگانا سخت منع ہے۔" (اسلامی زندگی، ص 83،قادری پبلشرز، لاہور)

رسم و رواج کے جواز وعدم جواز کے حوالے سے اصول بیان کرتے ہوئے امام اہل سنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ”رسم کا اعتبار جب تک کسی فساد عقیدہ پر مشتمل نہ ہو اصل رسم کے حکم میں رہتا ہے اگر رسم محمودہے محمود ہے، مذموم ہو مذموم ہے، مباح ہو مباح ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 24، صفحہ 119، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

مندرجہ بالا جزئیہ نقل کرنے کے بعد فتاوی بریلی شریف میں ہے ”اس عبارت سے بھی معلوم ہوا کہ رسمیں بعض اچھی ہیں بعض بری اور بعض ایسی ہیں کہ نہ اچھی ہیں نہ بری، ان کا حاصل یہ ہے کہ جو رسم منکراتِ شرعیہ سے خالی ہو یعنی اس میں شرع کے خلاف کوئی عمل نہ ہو اور لوگ اسے واجب مسنون سمجھ کر نہ کرتے ہوں تو جائزو مباح ہے اور جو ایسا نہ ہو وہ ضرور ناجائز و ممنوع ہے۔ (فتاوی بریلی، صفحہ328، زاویہ پبلشرز، لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا اعظم عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4493

تاریخ اجراء: 09 جمادی الاخریٰ 1447ھ / 01 دسمبر 2025ء