دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
جنازے کے ساتھ ذکر و اذکار کرنا مکروہ ہے، لیکن کلمہ شہادت پڑھا جاتا ہے، اس کا کیا حکم ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
نماز جنازہ کے ساتھ کلمہ شہادت اور ذکر و اذکار بلند آواز سے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، شرعاً جائز ہے۔
تفصیل یہ ہے کہ سلفِ صالحین کے زمانے میں جنازے کے ساتھ کلمہ شریف یا دیگر اذکار، بلند آواز سے پڑھنے کا معمول نہیں تھا کہ اُس وقت کے لوگ موت کو دیکھ کر عبرت پکڑتے، غمگین ہوتے اور دل آخرت کی فکر میں ڈوب جاتے تھے، اس لیے اُس وقت سکوت افضل سمجھا گیا، تاکہ ان کے دھیان اور فکر آخرت میں خلل نہ آئے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جب بعد میں لوگ جنازوں کے ساتھ دنیاوی گفتگو میں مشغول ہونے لگے، جنازوں میں ہنسی مذاق اور فضول گفتگو عام ہو گئی، تو علمائے کرام نے جنازے کے ساتھ کلمہ طیبہ اور ذکرِ الٰہی بلند آواز سے پڑھنے کا حکم دیا، تاکہ لوگوں کے دل بیدار ہوں اور موت کی یاد تازہ ہو۔
چنانچہ اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سُنَّت، امام اَحْمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں: ”یہ حکم اس زمانِ خیر کے لئے تھا جبکہ ہمراہیانِ جنازہ تصوّرِ موت میں ایسے غرق ہوتے تھے کہ گویا میّت ان میں ہر ایک کا خاص اپنا کوئی جگر پارہ ہے بلکہ گویا خود ہی میت ہیں، ہمیں کو جنازہ پر لئے جاتے ہیں اور اب قبر میں رکھیں گے، ولہذا علماء نے سکوتِ محض کو پسند کیا تھا کہ کلام اگرچہ ذکر ہی ہو اگرچہ آہستہ ہو، اس تصور سے کہ (بغایت نافع اور مفید اور برسوں کے زنگ دل سے دھو دینے والا ہے) روکے گا یا کم از کم دل بٹ جائیگا تو اس وقت محض خاموشی ہی مناسب تر ہے، ورنہ حاش ﷲ ذکر خدا ورسول نہ کسی وقت منع ہے۔۔۔ اب کہ زمانہ منقلب ہُوا، لوگ جنازہ کے ساتھ اور دفن کے وقت اور قبروں پر بیٹھ کر لغویات وفضولیات اور دنیوی تذکروں بلکہ خندہ ولہو میں مشغول ہوتے ہیں تو انہیں ذکرِ خدا و رسول جل و علا و صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم کی طرف مشغول کرنا عین صواب و کارِ ثواب ہے، معہذا جنازہ کے ساتھ ذکرِ جہر کی کراہت میں اختلاف ہے کہ تحریمی ہے یا تنزیہی ہے، اور ترجیح بھی مختلف آئی۔ قنیہ میں کراہت تنزیہ کو ترجیح دی اور اسی پر فتاوٰی تتمہ میں جزم فرمایا اور یہی تجرید و مجتبی و حاوی و بحر الرائق وغیرہا کے لفظ ینبغی کا مفاد ہے اور ترک اولی اصلاً گناہ نہیں۔۔۔ اور عوام کو اللہ عزوجل کے ایسے ذکر سے منع کرنا جو شرعاً گناہ نہ ہو محض بدخواہی عام مسلمین ہے اور اس کا مرتکب نہ ہوگا مگر متقشف کہ مقاصدِ شرع سے جاہل وناواقف ہو یا متصلف کہ مسلمانوں میں اختلاف ڈال کر اپنی رفعت وشہرت چاہتا ہو، بلکہ ائمہ ناصحین تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ منع کرنا اُس منکر سے ضرور ہے جو بالاجماع حرام ہو، بلکہ تصریحیں فرمائیں کہ عوام اگر کسی طرح یادِ خدا میں مشغول ہوں ہرگز منع نہ کئے جائیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 9، صفحہ 140، 141، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد فراز عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4454
تاریخ اجراء: 27 جمادی الاولٰی 1447ھ / 19 نومبر 2025ء