میت کو سرمہ لگا سکتے ہیں؟

میت کو سرمہ لگانے کا حکم

دارالافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

میت کو سرمہ لگانا کیسا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

میت کو سرمہ لگانا مکروہ تحریمی، ناجائز و گناہ ہے کہ یہ زینت ہے اور میت زینت کا محل نہیں ہے، جیسا کہ فقہائے کرام نے زینت کے دیگر کام جیسے ناخن تراشنے اور بال مونڈنے وغیرہ سے منع کیا ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے

”لا تقص أظفا ره وشاربه ولحيته ولا يختن ولا ينتف إبطه ولا تحلق عانته ولأن ذلك يفعل لحق الزينة والميت ليس بمحل الزينة ولهذا لا يزال عنه شيء

ترجمہ: میت کے ناخن اور داڑھی مونچھوں کے بال نہ تراشے جائیں، نہ ختنہ کیا جائے، نہ بغل کے بال اکھاڑے جائیں اور نہ موئے زیر ناف کاٹے جائیں، کیونکہ یہ کام زینت کے لئے کیے جاتے ہیں اور میت زینت کا محل نہیں، اسی لئے اس سے کوئی چیز زائل نہیں کی جائے گی۔ (بدائع الصنائع، جلد 2، صفحہ26، مطبوعہ: کوئٹہ)

بہار شریعت میں ہے ”میت کی داڑھی یا سر کے بال میں کنگھا کرنا یا ناخن تراشنا یا کسی جگہ کے بال مونڈنا یا کترنا یا اکھاڑنا، ناجائز و مکروہ تحریمی ہے۔“ (بہار شریعت، جلد1، حصہ 4، صفحہ 816، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

فتاوی تاج الشریعہ میں سوال ہوا کہ ”ہندوستان میں ہر جگہ رواج ہے کہ مردہ کو سرمہ ضرور لگاتے ہیں، لگانا جائز ہے کہ نہیں ؟کچھ آدمی نا جائز بتاتے ہیں۔

جواباً ارشاد فرمایا: ”ناجائز ہے۔ رد المحتار میں ہے: ”لمافی القنیۃ من ان التزئین بعد موتھا والامتشاط و قطع الشعر لایجوز" نھر " واللہ تعالی اعلم۔“ (فتاوی تاج الشریعہ، جلد4، صفحہ493، شبیر برادرز، لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب : ابو شاہد مولانا محمد ماجد علی مدنی

فتوی نمبر : WAT-4462

تاریخ اجراء : 29جمادی الاولی1447 ھ/21نومبر2025 ء