دارالافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص نمازِ جنازہ میں اُس وقت شامل ہوا جب بعض تکبیریں ہو چکی ہوں، مگر اُسے یہ معلوم نہ ہو کہ امام صاحب کونسی تکبیر میں ہیں اور وہ تکبیر کہہ کر نماز ِ جنازہ میں شامل ہو جائے، تو ایسی صورت میں وہ کیا پڑھے گا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگر کسی شخص کی نمازِ جنازہ میں بعض تکبیریں رہ گئیں اور وہ امام کو دو تکبیروں کے درمیان پائے، تو آتے ہی فوراً نماز میں شامل نہ ہو، بلکہ امام کی اگلی تکبیر کا انتظار کرے اور جب امام تکبیر کہے، تو اسی وقت تکبیر کہہ کر شامل ہو جائے، اور اگر انتظار کیے بغیر فوراً شامل ہو گیا، تو نماز میں شریک تو ہو جائے گا، لیکن اس صورت میں امام کے تکبیر کہنے سے پہلے جو تکبیر و اذکار پڑھے گا، اس کا اعتبار نہیں ہوگا، بلکہ امام کے ساتھ جو اگلی تکبیر کہے گا وہ اس کے حق میں پہلی شمار ہوگی اور اس وقت اذکار دوبارہ پڑھے گا۔
پھر اگر اُسے یہ معلوم نہ ہو کہ امام صاحب کونسی تکبیر میں ہیں، تو وہ نمازِ جنازہ کی نیت باند ھ کر ترتیب وار ہر تکبیر کے ساتھ اس کے اذکار (یعنی اپنی پہلی تکبیر کے بعد ثنا، دوسری کے بعد درود پاک اور تیسری کے بعد دعا) پڑھے اور جب امام سلام پھیر دے، تو وہ اپنی باقی رہ جانے والی تکبیریں اور اذکار اسی ترتیب سے مکمل کرے، مثلاً: اگر کسی شخص کی دو تکبیریں رہ گئی تھیں اور وہ آخری دو تکبیروں میں امام کے ساتھ شریک ہوا، تو وہ نیت باندھ کر اپنی پہلی تکبیر کے بعد ثنا اور دوسری کے بعد درود پاک پڑھے، پھر جب امام سلام پھیر دے، تو وہ امام کے ساتھ سلام نہ پھیرے، بلکہ تیسری تکبیر کہہ کر دعا پڑھے اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیر دے، البتہ اگر یہ اندیشہ ہو کہ جنازہ اُٹھا لیا جائے گا، تو ایسی صورت میں بغیر اذکار کے بقیہ تکبیریں کہہ کر سلام پھیر دے۔
جس شخص کی نمازِ جنازہ میں بعض تکبیریں رہ گئیں، تو اس کے نمازِ جنازہ میں شامل ہونے سے متعلق علامہ شُرُنبلالی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1069ھ/1658ء) لکھتے ہیں:
”(لا يقتدی بالامام من) سبق ببعض التكبيرات و (وجده بين تكبيرتين) حين حضر (بل ينتظر تكبير الامام) ويدخل معه اذا كبر عند ابي حنيفة و محمد و قال ابو يوسف يكبر حين يحضر و يحسب له وعندهما يقضي الجميع ولا يحسب له تكبير احرامه كالمسبوق بركعات (ويوافقه) ای: المسبوق امامه (فی دعائه)لو علمه بسماعه على ما قاله مشائخ بلخ ان السنة ان يسمع كل صف ما يليه (ثم يقضی) المسبوق (ما فاته) من التكبيرات (قبل رفع الجنازة) مع الدعاء ان امن رفع الجنازة والا كبر قبل وضعها على الاكتاف متتابعا اتقاء عن بطلانها بذهابها“
یعنی وہ شخص جس کی جنازہ میں بعض تکبیریں رہ گئیں اور وہ امام کو دو تکبیروں کے درمیان پائے، تو آتے ہی امام کی اقتدا نہ کرے، بلکہ امام کی تکبیر کا انتظار کرے اور امام اعظم ابو حنیفہ و محمد رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہُمَا کے نزدیک جب امام تکبیر کہے، تو اسی وقت تکبیر کہہ کر اس کے ساتھ نماز میں شامل ہو جائے اور امام ابو یوسف عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ فرماتے ہیں کہ وہ آتے ہی تکبیر کہہ لے اور اس کی یہ تکبیر شمار ہوگی، جبکہ طرفین کے نزدیک تمام تکبیریں پوری کرے اور اس کی (وہ تکبیر جو اس نے دو تکبیروں کے درمیان کہی تھی) تکبیر ِ تحریمہ شمار نہیں ہو گی، مسبوق بالرکعات کی طرح۔ نمازِ جنازہ کا مسبوق اپنے امام کے اذکار (درودو دعا وغیرہ) میں موافقت کرے، اگر وہ ان اذکار کو سُن کر جان لے، جیسا کہ مشائخِ بلخ نے فرمایا: سنت یہ ہے کہ ہر صف اپنی ملی ہوئی صف کو اذکار وغیرہ سنائے، پھر مسبوق فوت شدہ تکبیرات کو اذکار سمیت جنازہ اُٹھائے جانے سے پہلے ادا کرے، اگر جنازہ کے اٹھائے جانے کا خوف نہ ہو، ورنہ کندھوں تک اُٹھائے جانے سے پہلے (بغیر اذکار کے) لگاتار تکبیریں کہے، تاکہ جنازہ کے چلے جانے سے اس کی نماز باطل نہ ہو۔ (مراقی الفلاح شرح نور الایضاح، صفحہ298، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
تنویر الابصار مع درمختار میں ہے:
”(المسبوق) ببعض التكبيرات لا يكبر في الحال بل (ينتظر) تكبير (الامام ليكبر معه) للافتتاح لما مر ان كل تكبيرة كركعة والمسبوق لا يبدا بما فاته“
ترجمہ: مسبوق جس کی بعض تکبیریں رہ گئی ہوں، تو وہ فوراً تکبیر نہ کہے، بلکہ امام کی تکبیر کا انتظار کرے تاکہ وہ امام کے ساتھ افتتاحِ نمازِ جنازہ کے لیے تکبیر کہے، کیونکہ پہلے گزر چکا کہ نمازِ جنازہ میں ہر تکبیر ایک رکعت کی طرح ہے اور مسبوق اپنی فوت شدہ رکعتوں سے نماز کی ابتدا نہیں کرتا (یعنی جیسے رکوع کے بعد شامل ہونے والا نماز میں شریک تو ہوتا ہے، مگر رکعت شمار نہیں ہوتی، بلکہ بعد میں ادا کرتا ہے، یونہی دو تکبیروں کے درمیان شامل ہو کر اپنی تکبیر و اذکار پڑھنے والا نمازِ جنازہ میں شریک تو ہو جائے گا، مگر وہ تکبیر واذکار شمار نہیں ہوں گے)۔ (تنویر الابصار مع درمختار، جلد3، صفحہ 135-134، مطبوعہ کوئٹہ )
نمازِ جنازہ میں مسبوق کو امام کی تکبیرات کا علم نہ ہو اور وہ تکبیر کہہ کر نماز میں شامل ہو جائے، تو ان میں پڑھنے کے متعلق علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:
”فی نور الايضاح وشرحه ان المسبوق يوافق امامه فی دعائه لو علمه بسماعه اهـ ولم يذكر ما إذا لم يعلم وظاهر تقييده الموافقة بالعلم انه اذا لم يعلم بان لم يعلم انه فی التكبيرة الثانية او الثالثة مثلا ياتی به مرتبا: ای بالثناء ثم الصلاة ثم الدعاء“
ترجمہ: نور الایضاح اور اس کی شرح میں ہے کہ نمازِ جنازہ کا مسبوق اپنے امام کے اذکار (درودو دعا وغیرہ) میں موافقت کرے، اگر وہ ان اذکار کو سُن کر جان لے، لیکن اس صورت (یعنی جب مسبوق کو امام کی تکبیرات و اذکار کا علم نہ ہو، تو کیا پڑھے، اس) کا حکم ذکر نہیں کیا گیا۔ صاحبِ نور الایضاح کا علم کے ساتھ موافقت کو مقید کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب وہ نہ جانے، مثلاً: مسبوق کو معلوم نہ ہو کہ امام دوسری یا تیسری تکبیر میں ہے، تو وہ ترتیب وار (ہر تکبیر کے ساتھ اس کے) اذکار پڑھے، یعنی پہلے ثنا، پھر درود پاک اور پھر دعا۔ (حاشیۃ ابن عابدین، کتاب الصلوۃ، باب صلوۃ الجنازۃ، جلد3، صفحہ136، مطبوعہ کوئٹہ)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں: ”بعض تکبیریں فوت ہوگئیں یعنی اس وقت آیا کہ بعض تکبیریں ہوچکی ہیں، تو فوراً شامل نہ ہو، اس وقت ہو جب امام تکبیر کہے اور اگر انتظار نہ کیا، بلکہ فورا ً شامل ہوگیا، تو امام کے تکبیر کہنے سے پہلے جو کچھ ادا کیا اس کا اعتبار نہیں۔۔۔مسبوق یعنی جس کی بعض تکبیریں فوت ہوگئیں وہ اپنی باقی تکبیریں امام کے سلام پھیرنے کے بعد کہے اور اگر یہ اندیشہ ہو کہ دعائیں پڑھے گا، تو پوری کرنے سے پہلے میت کو کندھوں تک اٹھا لیں گے، تو صرف تکبیریں کہے، دعائیں چھوڑ دے۔“ (بھارِ شریعت، جلد1، حصہ 4، صفحہ839-838، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD-9569
تاریخ اجراء: 22 ربیع الآخر 1447ھ/16 اکتوبر 2025 ء