دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
وہ میت جس کے ذمہ سجدۂ تلاوت ادا کرنا باقی تھا، تو اس کے فدیہ میں ایک ہی صدقۂ فطر ادا کیا جائے گا یا دو صدقۂ فطر دینے ہوں گے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
میت پر جتنے سجدۂ تلاوت واجب تھے اور ادا نہ کئے تو اتنے سجدۂ تلاوت کی مقدار صدقۂ فطر ادا کئے جائیں گے، مثلاً ایک سجدۂ تلاوت باقی تھا تو ایک صدقۂ فطر اور دس سجدۂ تلاوت باقی تھے تو دس صدقۂ فطر ادا کئے جائیں گے، ایک سجدہ تلاوت کی طرف سے دوصدقہ فطردینےکاحکم نہیں ہے ۔ نیز یاد رہے کہ سجدۂ تلاوت کا فدیہ ادا کرنا واجب نہیں ہے، البتہ! بہتر ہے کہ اِس کا فدیہ بھی ادا کر دیا جائے۔ اور اگر میت نے وصیت نہیں کی اوروارث اپنے طور پر ادا کرنا چاہے تو ادائیگی درست ہے اور ادا کرنے والے کو اس کاثواب ملے گا۔
الاشباہ و النظائر لابن نجیم اور فتاوی تاتارخانیہ میں ہے
(و اللفظ للآخر) و لو وجب عليه سجدة التلاوة فلم يسجدها حتى مات يعطى لكل سجدة منوين من الحنطة كما في الصلاة، و الصحيح أنه لا يجب
ترجمہ: اگر کسی شخص پر سجدہ تلاوت واجب تھا اور اس نے ادا نہیں کیا حتی کہ وہ مر گیا تو اب ہر سجدہ کے بدلے میں دو صاع گندم کے دئیے جائیں جیسا کہ نماز کے فدیہ میں ہوتا ہے اور صحیح قول یہ ہے کہ سجدہ تلاوت کا فدیہ دینا واجب نہیں ہے۔ (الفتاوى التاتار خانية، الفصل الحادی و العشرون فی سجدۃ التلاوۃ، جلد 1، صفحہ 790، مجلس دائرۃ المعارف، الھند)
رد المحتار میں ہے
و لا روایۃ فی سجدۃ التلاوۃ انہ یجب او لا یجب کما فی الحجۃ، و الصحیح انہ لا یجب
ترجمہ: اور سجدہ تلاوت کے بارے میں کوئی روایت نہیں کہ اس کا فدیہ واجب ہو گا یا نہیں، جیسا کہ الحجہ میں ہے، اور صحیح یہ ہے کہ واجب نہیں ہے۔ (رد المحتار، جلد 2، صفحہ 73، مطبوعہ: بیروت)
اعلی حضرت امام اہل سنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "ہر سجدہ تلاوت کے لیے بھی احتیاطاً ایک فدیہ مثل ایک نماز کے ادا چاہئے
و ان لم یجب علی الصحیح کما فی التاتارخانیۃ
(اگرچہ صحیح قول کے مطابق واجب نہیں جیسا کہ تاتارخانیہ میں ہے)۔" (فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ 540۔ 541، رضا فاؤنڈیشن، لاھور(
میت نے وصیت نہ کی ہو، تو اس کی طرف سے فدیہ ادا کرنے کے متعلق علامہ علاؤالدین حصکفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
(ان) لم يوص و (تبرع وليه به جاز)۔۔۔ و يكون الثواب للولی
ترجمہ: اگر میت نے وصیت نہ کی اور اس کا ولی اس کے معاملے میں احسان کرتے ہوئے فدیہ ادا کرے، تو جائز ہے اور ولی کو ثواب ملے گا۔ (الدرالمختار شرح تنوير الأبصار، باب ما يفسد الصوم و ما لا يفسده، صفحہ 149، دار الكتب العلمية، بيروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4394
تاریخ اجراء: 09 جمادی الاولٰی 1447ھ / 01 نومبر 2025ء