قبروں پر غبارے لگانا یا سجاوٹ کرنا کیسا؟

قبروں پر تزئین و آرائش کرنے کا حکم

دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

نیپال کے بعض علاقوں میں یہ رواج ہے کہ جب کسی کا انتقال ہوجائے یا شب براءت، عید میلاد النبی،صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم یا گیارہویں ہو تو قبروں پر تزئین و آرائش کے طور پر غبارے لگائے جاتے ہیں؟ شرعا ایسا کرنا کیسا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

قبروں پر تزئین و آرائش کے لیے غبارے لگانے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ قبر زینت کا محل نہیں ہے، لہذا یہ اسراف ہے۔

اسراف سے منع کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

وَلَا تُسْرِفُوْا ۚاِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ

ترجمہ کنز العرفان: اور حد سے نہ بڑھو بیشک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ (پارہ 8، سورۃ الاعراف، آیت: 31)

فتاوی رضویہ میں ہے ”حاصل حکم یہ ہے کہ قبور عامہ ناس پر روشنی جب کہ خارج سے کوئی مصلحت مصالح مذکورہ کے امثال سے نہ ہو ضرور اسراف ہے اور اسراف بیشک ممنوع۔ فقہاء اسی کو منع فرماتے ہیں کہ یہی علتِ منع بتاتے ہیں، اور اگر زینت قبر مطلوب ہو تو قبر محلِ زینت نہیں، اب بھی اسرا ف ہوا، بلکہ کچھ زائد۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 9، صفحہ 520، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد بلال عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4409

تاریخ اجراء: 14 جمادی الاولٰی 1447ھ / 06 نومبر 2025ء