کچے بچے کی نماز جنازہ پڑھنا

کچے بچے کی نماز جنازہ کا حکم

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ابو داؤد شریف میں اس طرح کی حدیث پاک موجود ہے کہ کچے بچے کا جنازہ پڑھا جائے گا۔برائے کرم شریعت کی رو سے رہنمائی فرمائیں کہ کچے بچے کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی یا نہیں؟ اگر نہیں، تو پھر اس حدیث پاک کا کیا مطلب ہے؟          

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

کچا بچہ وہ ہوتا ہے، جو مدتِ حمل پوری ہونے سے پہلے (یعنی چھ ماہ سے کم عمر میں) ماں کے پیٹ سے ساقط ہو جائے۔ ایسا بچہ اگر مردہ حالت میں پیدا ہو، خواہ اس کے اعضاء مکمل ہوں یا نامکمل، بہر صورت اس پر نمازِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی، کیونکہ اس کے حق میں میت(یعنی زندہ رہ کر مرنے والوں) کے احکام، جیسے غسل، کفن اور نمازِ جنازہ وغیرہ ثابت نہیں ہوتے، لہٰذا اسے یونہی پانی ڈال کر صاف کرکے ایک کپڑے میں لپیٹ کردفن کر دیاجائے گا، البتہ اس کا نام رکھنا مستحب ہے، تاکہ قیامت کے دن وہ اپنے والدین کے حق میں شفاعت کا باعث بنے۔

کچے بچے کے متعلق مرقاۃ المفاتیح میں ہے:أی: ”الولد الساقط قبل ستۃ أشھر“یعنی”السقط“ اس بچے کو کہتے ہیں جو (ماں کے پیٹ میں) چھ ماہ سے پہلے فوت ہو جائے۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد3، صفحہ1253، مطبوعہ دارالفکر، بیروت)

جو بچہ ماں کے پیٹ میں فوت ہو جائے اس پر نمازِ جنازہ نہ  پڑھنے کے متعلق مصنف ابن ابی شیبہ، سنن ترمذی اور مسند احمد میں ہے: والفظ للاول:

”عن جابر قال: اذا استهل الصبی صلي عليه وورث واذا لم يستهل لم يورث ولم يصل عليه“

ترجمہ: حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ جب بچہ پیدائش کے وقت رونے کی آواز نکالے، تو اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور وہ وارث بھی ہو گا اور جب بچہ پیدائش کے وقت رونے کی آواز نہ نکالے(یعنی مردہ حالت میں پیدا ہو)، تو نہ وہ وارث ہو گا اور نہ اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، جلد6، صفحہ287، مطبوعہ مكتبة الرشد، الرياض)

سنن ترمذی کی حدیث پاک کے تحت علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1014ھ/1605ء) لکھتے ہیں:

”صححه ابن حبان والحاكم وقال: إنه على شرط الشيخين“

 یعنی اس حدیث کو ابن حبان نے صحیح کہا اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث شیخین (امام بخاری ومسلم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہما) کی شرط کے موافق اور  صحیح ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد3، صفحہ1214، مطبوعہ دارالفکر، بیروت)

مفتی محمد احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1391ھ/1971ء)لکھتےہیں: ”اگر بچہ زندہ پیدا ہوکر مرجائے جس کی زندگی اس کی چیخ یا حرکت سے معلوم ہوجائے تب تو اس کی نماز جنازہ بھی ہے اور اس کا نام بھی رکھا جائے گا، اس کا باقاعدہ کفن دفن بھی ہوگا، اس پر میراث کے احکام بھی جاری ہوں گے، اگر مردہ ہی پیدا ہو تو وہ گر اہوا حمل ہے، جس پر یہ کوئی حکم (غسل و کفن بطریق مسنون اور نماز جنازہ) جاری نہیں صرف ایک کپڑے میں لپیٹ کر گڑھے میں داب (دفنا) دیا جائے گا۔۔۔اس حدیث کو ابن حبان نے صحیح کہا اور حاکم نے فرمایا کہ یہ علی شرط شیخین ہے۔(مراٰۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح، جلد2، صفحہ462،  مطبوعہ حسن پبلشرز، لاھور)

جو بچہ مردہ حالت میں پیدا ہو، تو اس کے حق میں میت کے احکام جاری نہیں ہوتے، چنانچہ علامہ بُر ہانُ الدین مَرْغِینانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 593ھ/1196ء) لکھتے ہیں:

”(ومن استهل بعد الولادة سمي وغسل وصلي عليه) لقوله علیہ السلام: إذا استهل المولود صلي عليه، وإن لم يستهل لم يصل عليه" ولان الاستهلال دلالة الحياة فتحقق في حقه سنة الموتى (وان لم يستهل أدرج في خرقة) كرامة لبني آدم (ولم يصل عليه) لما روينا، ويغسل في غير الظاهر من الرواية لأنه نفس من وجه، وهو المختار“

 ترجمہ: اور جو بچہ پیدائش کے بعد رونے کی آواز نکالے،  اس کا نام رکھا جائے گا، اسےغسل دیا جائے گا اور اس پر نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی، کیونکہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان ہے: جب پیدا ہونے والا بچہ آواز سے روئے، تو اس پر نمازِ جنازہ پڑھی جائے اور اگر آواز سے نہ روئے، تو اس پر نمازِ جنازہ نہ پڑھی جائے، کیونکہ آواز سے رونا زندہ ہونے کی علامت ہے، لہذا اس کے حق میں بھی میت کے احکام ثابت ہوں گے اور اگر پیدا ہونے کے بعد آواز سے نہیں رویا، تو بنی آدم کے اکرام کی وجہ سے اس کو ایک کپڑے میں لپیٹ دیا جائے گا اور ہماری بیان کردہ روایت(إذا استهل الصبي۔۔۔الخ) کی وجہ سے اس پر نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی اور غیر ظاہر الروایہ  کے مطابق اُسے نہلایا جائے گا، کیونکہ ایک اعتبار سے وہ بھی جان ہے اور یہی (قول) مختار ہے۔                                            (الهداية، جلد1، صفحہ91، مطبوعہ دار احياء التراث العربي، بيروت )

سوال میں مذکور حدیث پاک کا معنی:

اولاً اس حدیث پاک کا متن اور ترجمہ ملاحظہ ہو:

چنانچہ سنن ابی داؤد میں ہے:

عن المغيرة بن شعبة، وأحسب أن أهل زياد أخبروني أنه رفعه إلى النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال: ”الراكب يسير خلف الجنازة، والماشي يمشي خلفها، وأمامها، وعن يمينها، وعن يسارها قريبا منها، والسقط يصلى عليه، ويدعى لوالديه بالمغفرة والرحمة“

 ترجمہ: حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی كريم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’سوار آدمی جنازہ کے پیچھے چلے اور پیدل لوگ اس کے پیچھے، آگے، دائیں اور بائیں اس کے قریب قریب چلیں، اور جو بچہ کچا پیدا ہو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے اور اس کے ماں باپ کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعا کی جائے۔ (سنن ابی داؤد، جلد3، صفحہ205، مطبوعہ المكتبة العصرية، صيدا، بيروت)

(1)اس حدیث مبارک میں ان الفاظ والسقط يصلى عليه“ (یعنی جو بچہ کچا پیدا ہو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے)  کا تعلق اس صورت کے ساتھ خاص ہے کہ جب بچے میں زندگی کی کوئی علامت ظاہر ہوئی ہو، جیسے کسی عضو کی حرکت یا آواز کا نکلنا وغیرہ، وگرنہ مردہ پیدا ہونے والے بچے کے متعلق تو احادیث میں واضح طور پر جنازہ سے منع کیا گیا ہے، جیسا کہ اوپر  روایات میں «اذا استهل الصبی صلي عليه» (یعنی جس بچے نے زندہ ہونے کی علامت ظاہر کی، تو اس پر نماز پڑھی جائے گی) بیان ہوا ہے۔

چنانچہ فیض القدیر، لمعات التنقیح شرح مشکوۃ المصابیح میں ہے:

والنظم للآخر: ”(والسقط يصلى عليه) الولد لغير تمام، فعندنا وعند الشافعي هذا مخصوص بأن يستهل، وهو أن يكون منه ما يدل على الحياة من حركة عضو أو رفع صوت۔۔۔ وروى النسائي عن جابر: (إذا استهل الصبي صلي عليه وورث)، ورواه الحاكم عن أبي الزبير، وقال: صحيح.“

 ترجمہ: السقط سے مراد وہ بچہ ہے جو پیدائش سے پہلے ہی ساقط ہو جائے۔ ہماری (یعنی احناف) اور امام شافعی علیہ الرحمہ کے نزدیک یہ حکم مخصوص ہے اس صورت کے ساتھ کہ جب بچہ زندہ ہونے کی کوئی علامت ظاہر کرے، یعنی کسی عضو کی حرکت یا آواز وغیرہ۔۔۔امام نسائی نے حضرت جابر سے روایت کی ہے کہ جب بچہ پیدائش کے وقت آواز نکالے تو اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور وہ وارث بنے گا۔ اور امام حاکم نے یہی حدیث ابو الزبیر سے روایت کی ہے اور فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے۔ (لمعات التنقیح فی شرح مشکوۃ المصابیح، جلد4، صفحہ144، مطبوعہ دار النوادر، دمشق)

التجرید للقدوری، فتح باب العنایہ، بنایہ شرح ہدایہ میں ہے:

واللفظ للاول: احتجوا: بما روى المغيرة بن شعبة رضي الله عنه أن النبي صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم قال: (السقط يصلى عليه، ويدعا لوالديه بالمغفرة والرحمة) قلنا: هذا محمول على من علمت حياته، بدلالة الخبر الآخر“

ترجمہ: بعض لوگوں نے (کچے بچے کے جنازے کے متعلق) اس حدیث سے دلیل پکڑی ہے، جو حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کچے بچے پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی، اور اس کے والدین کے لیے مغفرت و رحمت کی دعا کی جائے۔ ہم کہتے ہیں: یہ حدیث اس صورت پر محمول ہے جس میں بچے کی زندگی ظاہر ہو چکی ہو، اس پر دوسری حدیث دلالت کرتی ہے۔ (التجرید للقدوری، جلد3، صفحہ1070، مطبوعہ القاهرة)

(2)اس روایت میں مطلقاً بچے کے جنازے کا حکم دیا گیا، جبکہ دوسری روایات میں بچے کے جنازے کو استہلال (یعنی زندہ ہونے کی علامت ظاہر کرنے)کی قید کےساتھ مقیَّد کیا گیا ہے اور اصول یہ ہے کہ اگر ایک نص میں عموم (اطلاق) ہو اور دوسری نص میں حصر ہو، تو حصر والی روایت ترجیح پاتی ہے۔

چنانچہ علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1014ھ/1605ء) لکھتے ہیں:

وأما معارضته بما رواه الترمذي من حديث المغيرة وصححه: أنه عليه الصلاة والسلام قال: (السقط يصلى عليه. إلخ) فساقطة ; إذ الحصر مقدم على الإطلاق عند التعارض“

 ترجمہ: رہا اس حدیثِ ترمذی سے تعارض، جو حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے اور امام ترمذی نے اسے صحیح قرار دیا ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: کچے بچے پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی، تو یہ تعارض معتبر نہیں، کیونکہ جب کسی حکم میں حصر اور اطلاق (یعنی عموم) کا تعارض ہو، تو حصر کو مقدم رکھا جاتا ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد3، صفحہ1204، مطبوعہ دار الفكر، بيروت)

(3)مسئولہ روایت کے تحت محدثین و فقہائے کرام رحمہم اللہ اجمعین نے لکھا ہے کہ اس حدیث مبارک میں بچے کے جنازے کی عموم ِاجازت ہے، جبکہ دیگر روایات میں مردہ پیدا ہونے والے بچے کے جنازے کی ممانعت صراحت کے ساتھ موجود ہے اور جب دو ایسی روایتوں میں تعارض ہو، جن میں ایک روایت میں عمومِ اجازت ہو اور دوسری میں ممانعت، تو ممانعت والی روایت مقدم ہوتی ہے۔

چنانچہ شیخ محقق شاہ عبد الحق محدث دہلوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1052ھ/1642ء) لکھتےہیں:

”الحظر مقدم على الإطلاق عند التعارض“

ترجمہ: جب کسی مقام پر ممانعت اور عموم میں تعارض ہو، تو ممانعت والی روایت کو مقدم رکھا جاتا ہے۔(لمعات التنقیح فی شرح مشکوۃ المصابیح، جلد4، صفحہ144، مطبوعہ دار النوادر، دمشق)

امام کمال الدین ابنِ ھُمَّام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 861ھ/1456ء) لکھتےہیں:

”وأما معارضته بما رواه الترمذي من حديث المغيرة وصححه أنه عليه الصلاة والسلام قال «السقط يصلى عليه ويدعى لوالديه بالمغفرة والرحمة» فساقطة، إذ الحظر مقدم على الإطلاق عند التعارض“

ترجمہ: اور جہاں تک معارض روایت کا تعلق ہے، جو امام ترمذی نے حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی اور اسے صحیح کہا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کچے بچے پر نماز جنازہ پڑھی جائے اور اس کے والدین کے لیے مغفرت و رحمت کی دعا کی جائے، تو یہ معارضہ باطل ہے، کیونکہ جب کسی حکم میں ممانعت (حظر) اور عموم (اطلاق) کا تعارض ہو، تو ممانعت کو مقدم رکھا جاتا ہے۔ (فتح القدیر، جلد2، صفحہ133، مطبوعہ دار الفكر، لبنان)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: OKR-0124

تاریخ اجراء:  27ربیع الثانی 1447ھ/21 اکتوبر 2025 ء