نمازِ جنازہ کے بعد دعا کا ثبوت

حدیث پاک "اذا صلیتم علی المیت فاخلصوا لہ الدعاء" سے طریقہ استدلال

دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

حدیث پاک "اذا صلیتم علی المیت فاخلصوا لہ الدعاء" سے ہم نماز جنازہ کے بعد دعا ثابت کرتے ہیں، اس میں ہمارے لیے کیسے دلیل ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

اس حدیث سے ہم یوں استدلال کرتے ہیں کہ:"اذا صلیتم"شرط اور "فاخلصوا لہ الدعاء" جزا ہے۔ اور شرط اور جزاکے درمیان تغایر ہوتا ہے (یعنی وہ ایک دوسرے سے جداہوتے ہیں)، نہ کہ جزا، شرط میں داخل ہوتی ہے، پھر صلیتم ماضی(PAST)  ہے اور فاخلصوا امر ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا مانگنے کا حکم نماز جنازہ کے بعد ہے، نیز"فاخلصوا" کے شروع میں "فا" ہے اور جمہور کے نزدیک "فا" ترتیب مع الوصل کےلیے آتی ہے (یعنی یہ بتانے کے لیے کہ فا، کے بعد والا کام، اس سے پہلے والے کام کے فورا بعد پایا جائے گا) جبکہ اس کے خلاف کوئی اور قرینہ نہ پایا جائے، اسی وجہ سے شرط کی جزاء میں حرف فا، لایا جاتاہے۔ لہذا اس کامعنی ہوا کہ: "پہلے جنازہ پڑھو پھر بلاتاخیر اخلاص کے ساتھ میت کےلیے دعا کرو۔"

تمہید القواعد بشرح تسہیل الفوائد میں ہے

جواب الشرط كخبر المبتدأ فلا بد  من  تغايرهما

ترجمہ: جواب شرط مبتدا کی خبر کی طرح ہے ،لہذا شر ط و جزاء میں تغایر ضروری ہے۔ (تمہید القواعد بشرح تسھیل الفوائد، جلد 9، صفحہ 4425، دار السلام)

توضیح المقاصد والمسالک بشرح الفیۃ ابن مالک میں ہے

الفاء للترتيب باتصال أي: بلا مهلة، فهي  للتعقيب، وهذا مذهب الجمهور

ترجمہ: "فاء" بغیر کسی مہلت کے ترتیب مع الوصل کےلیے ہے، پس وہ تعقیب کےلیے ہے اور یہ جمہور کا مذہب ہے۔ (توضیح المقاصد و المسالک بشرح الفیۃابن مالک، جلد 2، صفحہ 998، دار الفکر)

تلخیص اصول الشاشی میں ہے ”حرف فاء: (1) یہ تعقیب مع الوصل کیلئے آتاہے یعنی فاء کے بعد جو اسم یا فعل مذکور ہو وہ حکماً بھی موخر ہوتا ہے لیکن دونوں کے درمیان بغیر کسی مہلت کے اتصال ہوتاہے اسی وجہ سے شرط کی جزاء میں حرف فاء لایا جاتاہے کیونکہ جزاء شرط کے بعد ہوتی ہے۔مثلاکوئی شخص اپنی زوجہ سے کہے:

اِنْ دَخَلْتِ الدَّارَ فَھذِہِ الدَّارَ فَاَنْتِ طَالِقٌ

یعنی اگر تواس گھر میں داخل ہوئی پھر اس گھر میں داخل ہوئی تو تجھے طلاق ہے۔ تو اسی صورت میں طلاق ہوگی جب شرط میں مذکور ترتیب کے مطابق ان گھروں میں داخل ہو یعنی جس گھر کا پہلے ذکر کیا اس میں پہلے اور جس کا بعد میں ذکر کیا گیا اس میں بعد میں داخل ہو لیکن دونوں کے داخل ہونے کے درمیان اتصال بھی ہو یہی وجہ ہے کہ اگر وہ پہلے اس گھر میں داخل ہو کہ جس کا ذکر بعد میں کیا گیا ہے یا پھر دونوں گھروں میں داخل ہونے کے درمیان اتصال نہ ہوتوطلاق واقع نہیں ہوگی۔ (تلخیص اصول الشاشی، صفحہ 65، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

جاء الحق میں ہے ”مشکوۃ باب صلاۃ الجنازۃ فصل ثانی میں ہے

اذا صلیتم علی المیت فاخلصوا لہ الدعاء

ترجمہ: جب تم میت پر نماز پڑھ لو تو اس کے لیے خالص دعا مانگو۔

"ف" سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کے بعد فورا دعا کی جاوے بلاتاخیر ۔جو لوگ اس کے معنی کرتے ہیں کہ نماز میں اس کےلیے دعا مانگو وہ ”ف“ کےمعنی سے غفلت کرتے ہیں۔ صلیتم شرط ہے اور فاخلصوا اس کی جزا۔ شرط اور جزا میں تغایر چاہیے نہ یہ کہ اس میں داخل ہو، پھر صلیتم ماضی ہے اور فاخلصوا ہے امر۔جس سے معلوم ہوا کہ دعا کا حکم نماز پڑھ چکنے کے بعد ہے جیسے فاذا طعمتم فانتشروا میں کھا کر جانے کا حکم ہے نہ کہ کھانے کے درمیان۔“ (سعید الحق فی تخریج جاء الحق، حصہ اول، صفحہ 581، مکتبہ غوثیہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو شاہد مولانا محمد ماجد علی مدنی

فتوی نمبر: WAT-4468

تاریخ اجراء: 03 جمادی الاخریٰ 1447ھ / 25 نومبر 2025ء