
مجیب:مولانا فرحان احمد عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-1837
تاریخ اجراء:29محرم الحرام1446ھ/05اگست2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کسی کے انتقال کے بعد اس کی قبر پر چالیس دن تک اگربتی جلائی جاتی ہے، اس کا کیا حکم ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگرقبر کے پاس قرآن پڑھنے والے موجود ہوں اور انہیں خوشبو پہنچانے کی غرض سے قبر سے ہٹ کراگر بتی جلائی جائے ،تو یہ جائز و مستحسن ہے اور اگر وہاں لوگ موجود نہیں بلکہ محض قبر کے لیے جلائی جائے تویہ منع ہے ۔یونہی گھرمیں اگر بتی جلانی ہو، توفاتحہ خوانی وغیرہ کے وقت حاضرین کو خوشبوپہنچانے کے لئے جلائی جائے ،بلاوجہ نہ جلائی جائے کہ یہ اسراف اور ضیاعِ مال ہے۔
فتاوی رضویہ میں ہے :”عود لوبان وغیرہ کوئی چیز نفسِ قبر پر رکھ کرجلانے سے احتراز چاہئے اگرچہ کسی برتن میں ہو۔۔۔اورقریب قبر سلگا کر اگر وہاں کچھ لوگ بیٹھے ہوں نہ کوئی تالی یا ذاکر ہو بلکہ صرف قبر کے لیے جلا کر چلاآئے تو ظاہر منع ہے کہ اسراف و اضاعتِ مال ہے۔۔۔اوراگر بغرضِ حاضرین وقت فاتحہ خوانی یا تلاوت قرآن مجید وذکر الہٰی سلگائیں تو بہتر ومستحسن ہے۔“(فتاوی رضویہ ،جلد:9،صفحہ:482، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم