
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص نقشہ وغیرہ بنانے کا انجینئر(Architect)ہے وہ بینک میں جاب کرتا ہے اس کا کام صرف اتنا ہے کہ کہیں بھی بینک کی بلڈنگ بنے گی، تو اس کو نقشہ بنانا ہوگا، اس کا بینک کی یہ نوکری کرنا کیسا ہے؟ برائے کرم رہنمائی فرما دیں، جزاک اللہ خیرا
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
عام طور پر بینک میں ملازمت دو طرح کی ہوتی ہے: ایک وہ جس میں خود ناجائز کام کرنا پڑے، جیسے سود کالین دین ، اس کا لکھنا پڑھنا، تقاضا کرنا وغیرہ امور اس کے ذمہ ہوں، ایسی ملازمت ناجائز و حرام ہے۔ دوسری وہ ملازمت جس میں اِن سودی کاموں پر تعاون کی کوئی صورت نہ ہوتی ہو، بلکہ دیگر جائز قسم کے کام کرنے ہوتے ہیں جیسے سیکورٹی گارڈاور ڈرائیور وغیرہ کے کام، تو اس طرح کی ملازمت اور ان کی آمدنی جائز ہے۔
اوربینک کےلیے نقشہ بنانے کی ملازمت بھی اسی دوسری قسم میں شامل ہے؛ کیونکہ یہاں اجارے کا انعقاد نقشہ بنانے پر ہوتا ہے۔ اس کام میں بذاتِ خود کوئی ایسی چیز نہیں جو گناہ کے لیے متعین ہو۔ اور بینک کا اس عمارت میں سودی سرگرمیاں سرانجام دینا ان کا ذاتی عمل ہے جس کا نقشہ بنانے والے کے سَر کوئی الزام نہیں، بشرطیکہ وہ اس کام میں تعاون کی نیت نہ رکھتے ہوں۔ لہذا، پوچھی گئی صورت میں بینک کے لیے نقشہ بنانے کی ملازمت کرنا، جائز ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے :
﴿لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى﴾
ترجمہ کنز العرفان: کوئی بوجھ اٹھانے والا آدمی کسی دوسرے آدمی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (پارہ 08،سورۃ الانعام، آیت 164)
اس کے تحت تفسير ابن عطیہ میں ہے:
”أي لا تحمل حاملة حمل أخرى، وإنما يؤخذ كل واحد بذنوب نفسه“
ترجمہ: کوئی بھی اٹھانے والی جان کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی، بلکہ ہر شخص کو خود کے گناہوں کے بدلے میں پکڑا جائے گا۔ (تفسير ابن عطية، جلد 05، صفحہ 205، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
الہدایہ شرح بدایہ المبتدی میں ہے :
”ومن أجر بيتا ليتخذ فيه بيت نار أو كنيسة أو بيعة أو يباع فيه الخمر بالسواد فلا بأس به۔۔۔۔ لأن الإجارة ترد على منفعة البيت، ولهذا تجب الأجرة بمجرد التسليم، ولا معصية فيه، وإنما المعصية بفعل المستأجر، وهو مختار فيه فقطع نسبته عنه۔ملخصاً“
ترجمہ: جس نےگاؤں میں مکان کرایہ پر دیا تاکہ اس میں آتش کدہ یا گِرجا یا کلیسا بنایا جائے یا وہاں شراب فروخت کی جائے توکوئی حرج نہیں کیونکہ اجارہ کا انعقاد مکان کی منفعت پر ہواہے، اسی وجہ سے اجرت محض سونپنے سے ہی لازم ہوجاتی ہے اور اس میں کوئی گناہ نہیں ہے، گناہ تو کرایہ دار کے فعل سے متعلق ہے، اور وہ اس میں صاحب اختیار ہے ، تو اس سے گناہ کی نسبت منقطع ہوگئی ۔(الهداية في شرح البداية، جلد 04، صفحہ 378، دار احیاء التراث، بیروت)
کفار کے مذہبی رہنماؤں کو مکان و اراضی کرائے پر دینے کے متعلق فتاوی رضویہ میں ہے ”اس نے تو سکونت و زراعت پر اجارہ دیاہے، نہ کسی معصیت پر اور رہنا ،بونا فی نفسہٖ معصیت نہیں۔ اگر چہ وہ جہاں رہیں معصیت کریں گے، جو رزق حاصل کریں معصیت میں اٹھائیں گے، یہ ان کا فعل ہے جس کا اس شخص پر الزام نہیں
﴿لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى﴾
ترجمہ: کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔)“فتاوی رضویہ،جلد 19،صفحہ 441،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور(
اسی میں ہے:”ملازمت دو قسم ہے: ایک وہ جس میں خود ناجائز کام کرنا پڑے، جیسے یہ ملازمت جس میں سودکالین دین، اس کا لکھنا پڑھنا، تقاضا کرنا اس کے ذمہ ہو، ایسی ملازمت خود حرام ہے، اگر چہ اس کی تنخواہ خالص مال حلال سے دی جائے، وہ مال حلال بھی اس کے لئے حرام ہے، اور مال حرام ہے، تو حرام درحرام۔ دوسرے یہ کہ وہ ملازمت فی نفسہٖ امر جائز کی ہو مگر تنخواہ دینے والا وہ جس کے پاس مال حرام آتاہے، اس صورت کا حکم یہ ہے کہ اگر معلوم ہو کہ جو کچھ اسے تنخواہ میں دیا جارہا ہے، بعینہٖ مال حرام ہے۔ نہ بدلا نہ مخلوط ہوا نہ مستہلک ہوا تو اس کا لینا حرام ورنہ جائز۔
قال محمد بہ ناخذ مالم نعرف شیئا حراما بعینہ۔ ہندیۃ عن الظھیریۃ۔
امام محمد رحمہُ اللہُ تعالیٰ نے فرمایا، ہم اسی کو اختیار کریں گے جب تک عین حرام چیز کا علم نہ ہو، ہندیہ میں ظہیریہ سے منقول ہے۔ (ت)“(فتاوی رضویہ،جلد 19،صفحہ 515،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)
وقار الفتاوی میں ہے” :احادیث میں سود کا کاغذ لکھنے والے کے بارے میں سخت وعید آئی ہے اور جن ملازمین کو سود لکھنا نہیں پڑتا مثلا، دربان اور ڈرائیور وغیرہ تو ان کی ملازمت بھی جائز ہے اور تنخواہ بھی۔ (وقار الفتاوی،جلد 03،صفحہ 325،بزم وقار الدین ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب : محمد ساجد عطاری
مصدق: مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری
فتوی نمبر: NRL-0171
تاریخ اجراء: 06 رجب المرجب 1446 ھ/07 جنوری 2025 ء