
مجیب:مولانا عبدالرب شاکرعطاری مدنی
مصدق:مفتی محمدقاسم عطاری
فتوی نمبر:Sar-9250
تاریخ اجراء:29 رجب 1446 ھ/ 30 جنوری 2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ نمازِ جنازہ میں کل کتنی تکبیریں ہیں؟ ایک شخص کا کہنا ہے کہ صحاح ستہ میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالی عنہ نے جنازہ پر پانچ تکبیریں پڑھیں اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم پانچ تکبیریں پڑھا کرتے تھے، تو کیا یہ بات درست ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نماز ِجنازہ کی تکبیرات کے متعلق مختلف احادیث مروی ہیں، بعض روایات میں چار تکبیریں، جبکہ بعض میں پانچ، بعض میں سات تک ذکر کی گئی ہیں، اسی اختلاف کی بنیاد پر صحابہ کرام علیہم الرضوان بھی مختلف تکبیرات پڑھتے تھے اور ہر ایک کے پاس دلیل ہوتی تھی، لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دورِ مبارک آیا، تو آپ نے تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان کو جمع فرمایا اور ان سے اس مسئلہ کے متعلق مشورہ کیا اور اس بارے میں پوچھا، تو سب کی رائے چار پر متفق ہوگئی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام صحابہ کو انہی چار تکبیروں پر جمع فرما دیا تھا، اُس دن سے صحابہ کرام علیہم الرضوان کا چار تکبیروں پر اجماع ہوگیا تھا، اسی لئے حضرت ابووائل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے: چار، پانچ، سات تکبیریں پڑھی گئی ہیں، لیکن مسلمانوں کا اجماع چار تکبیروں پر ہوگیا ہے۔ اسی وجہ سے آج ہم بھی جنازہ میں چار تکبیریں کہتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چار تکبیروں سے جنازہ پڑھا تھا، جیسا کہ صحیح مسلم، سنن ابی داؤد، مصنف ابن ابی شیبہ، سنن ابن ماجہ، شرح السنہ للبغوی، معجم اوسط للطبرانی اور التمہید لابن عبد البر میں ہے: و اللفظ للاول: ”قال سعيد بن المسيب: أن أبا هريرة حدثه، أن رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صف بهم بالمصلى فصلى فكبر عليه أربع تكبيرات“ ترجمہ: حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عید گاہ میں صحابہ کی صفیں بنوائیں، پھر نمازِ جنازہ پڑھی اور میت پر چار تکبیریں کہیں۔(صحیح مسلم، کتاب الجنائز، جلد 2، صفحہ 657، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی)
عمدۃ القاری میں ہے: ”يدل على أن تكبيرات الجنازة أربع و به احتج جماهير العلماء منهم: محمد بن الحنفية و عطاء ابن أبي رباح و محمد بن سيرين و النخعي وسويد بن غفلة والثوری و أبو حنيفة و مالك والشافعي و أحمد، و يحكى ذلك عن: عمر بن الخطاب و ابنه عبد اللہ وزيد بن ثابت و جابر و ابن أبي أوفى والحسن بن علي والبراء بن عازب وأبي هريرة وعقبة ابن عامر، رضي الله تعالى عنهم“ ترجمہ: یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نمازِ جنازہ میں چار تکبیریں ہیں اور جمہور علماء نےاسی سے دلیل پکڑی ہے، ان میں سے محمد بن حنفیہ، عطاء بن ابی رباح، محمد بن سیرین، امام نخعی، سوید بن غفلہ، سفیان ثوری،امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیھم اور یہی مؤقف حضرت عمر بن خطاب، حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت زید بن ثابت، حضرت ِ جابر، حضرت ابن ابی اوفیٰ، حضرت امام حسن، حضرت براء بن عازب، حضرت ابوہریرہ اور حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہم کا ہے۔(عمدۃ القاری، کتاب الجنائز، جلد 8، صفحہ 116، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی)
"شرح النووی علی مسلم" میں امام ابوزکریا محی الدین یحییٰ بن شرف نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں : ”و اختلف الصحابة في ذلك من ثلاث تكبيرات إلى تسع وروی عن علي أنه كان يكبر على أهل بدر ستا و على سائر الصحابة خمسا و على غيرهم أربعا، قال ابن عبد البر و انعقد الإجماع بعد ذلك على أربع و أجمع الفقهاء و أهل الفتوى على أربع على ما جاء في الأحاديث الصحاح و ما سوى ذلك عندهم شذوذ لا يلتفت إليه“ ترجمہ: اس مسئلہ میں صحابہ کرام علیہم الرضوان کا تین تکبیرات سے لے کر نو تکبیرات تک اختلاف ہے۔ حضرت علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم سے مروی ہے کہ وہ اہل بدر پر چھ اور دیگر صحابہ پر پانچ تکبیریں کہا کرتے تھے اور صحابہ کے علاوہ اور لوگوں پر چار تکبیریں کہتے تھے۔ امام ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد چار تکبیروں پر اجماع منعقد ہو گیا اور تمام فقہاء اور اہل فتوی کا صحیح احادیث کی بنا پر چار تکبیروں پر اجماع ہے اور ان کے علاوہ جو تکبیرات کی تعداد ہے، وہ ان کے نزدیک شاذ ہے جس کی طرف توجہ نہیں کی جائے گی۔(شرح النووی علی مسلم، جلد 7، صفحہ 23، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں جنازے کی تکبیریں چار، پانچ، سات ہوتی تھیں، مگر حضرت عمر کے دور میں چار پر اجماع ہوگیا، جیسا کہ مصنف عبد الرزاق میں ہے :”عن ابي وائل قال: كانوا يكبرون في زمن النبي صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، سبعا، و خمسا، و أربعا، حتى كان زمن عمر فجمعهم، فسألهم فأخبر كل رجل منهم بما رأى، فجمعهم على أربع تكبيرات“ ترجمہ: حضرت ابووائل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام علیھم الرضوان نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں سات، پانچ اور چار تکبیریں کہا کرتے تھے، حتی کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور مبارک آیا، تو آپ نے صحابہ کرام علیھم الرضوان کو جمع کیا اور ان سے اس کے متعلق پوچھا، تو ہر ایک کی جو رائے تھی، انہوں نے بیان فرمائی، پھر آپ نے ان سب کو چار تکبیروں پر جمع فرمادیا۔(مصنف عبد الرزاق، کتاب الجنائز، جلد 4، صفحہ 204، مطبوعہ دارالتاصیل)
شرح معانی الآثار میں اس بات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے:”عن حماد، عن إبراهيم، قال: قبض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و الناس مختلفون في التكبير على الجنائز، لا تشاء أن تسمع رجلا يقول: سمعت رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم يكبر سبعا، و آخر يقول: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم يكبر خمسا، و آخر يقول: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم يكبر أربعا إلا سمعته، فاختلفوا في ذلك، فكانوا على ذلك حتى قبض أبو بكر فلما ولي عمر ، و رأى اختلاف الناس في ذلك، شق ذلك عليه جدا، فأرسل إلى رجال من أصحاب رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ، فقال: إنكم معاشر أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم متى تختلفون على الناس، يختلفون من بعدكم، و متى تجتمعون على أمر يجتمع الناس عليه، فانظروا أمرا تجتمعون عليه فكأنما أيقظهم، فقالوا: نعم ما رأيت يا أمير المؤمنين! فأشر علينا، فقال عمر: بل أشيروا أنتم علي، فإنما أنا بشر مثلكم فتراجعوا الأمر بينهم، فأجمعوا أمرهم على أن يجعلوا التكبير على الجنائز۔۔۔ فأجمع أمرهم على ذلك، فهذا عمر قد رد الأمر في ذلك إلى أربع تكبيرات بمشورة أصحاب رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم بذلك عليه وهم حضروا من فعل رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم۔۔۔ فكأن ما فعلوا من ذلك عندهم أولى مما قد كانوا علموا، فذلك نسخ لما قد كانوا علموا ۔۔۔فكان إجماعهم على ما قد أجمعوا عليه من ذلك حجة“ ترجمہ:حضرت حماد رحمۃ اللہ علیہ حضرت ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں،وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام دنیا سے تشریف لے گئے، جبکہ نماز جنازہ میں تکبیروں کے متعلق لوگوں کا اختلاف تھا۔ کوئی کہتا تھا کہ میں نے نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کو سات تکبیریں کہتے ہوئے سنا، کوئی کہتا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پانچ تکبیریں کہتے ہوئے سنا ہے اور کوئی کہتا کہ میں نے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کو چار تکبیریں کہتے ہوئے سنا ہے، اس معاملے میں ان کا اختلاف ہی تھا، اسی اختلاف پر وہ لوگ برقرار رہے، یہاں تک کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ بھی دنیا سے چلے گئے۔
جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ بنے اور آپ نے لوگوں کو اس مسئلے میں اختلاف کرتے دیکھا۔ آپ پر یہ بات بہت ہی ناگوار گزری۔ آپ نے نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کرام کی طرف پیغام بھجوا کر ان کو بلایا اور فرمایا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ کا گروہ ہو، تم اگر اختلاف کرو گے، تو لوگ تمہارے بعد اختلاف کرتے رہیں گے، جب تم کسی ایک معاملے پر اکٹھے ہو جاؤ گے، تو لوگ بھی اس معاملے پر اکٹھے ہو جائیں گے، تو تم اس بارے میں غور و فکر کرو اور کسی معاملہ پر اکٹھے ہوجاؤ، گویا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سب کو تنبیہ فرمائی، تو صحابہ نے عرض کیا، جی ہاں! اے امیر المومنین! آپ کی جو رائے ہے، ہمیں اس کا مشورہ دیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا :بلکہ تم مجھے مشورہ دو،میں تو تمہاری مثل بشر ہوں، تو صحابہ کرام علیہم الرضوان نے آپس میں اس معاملے پر مشورہ کیا۔ ان سب نے اس بات پر اتفاق کر لیا کہ جنازے میں چار تکبیریں کہی جائیں۔۔۔ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سب کو چار تکبیروں پر جمع فرمادیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ کے مشورے سے یہ معاملہ چار تکبیروں کی طرف لوٹا دیا، حالانکہ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے نبی کریم علیہ الصلوۃ و السلام کے فعل کا مشاہدہ کیا ہوا تھا۔۔۔ تو گویا کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے اس مسئلہ میں وہ مؤقف اختیار کیا، جو ان کے نزدیک اولیٰ تھا، تو اس سے ان کی پہلے والی رائے منسوخ ہوگئی۔۔۔ اور ان کا چار تکبیروں پر اجماع کرنا حجت ہوگیا۔(شرح معانی الاآثار، کتاب الجنائز، جلد1، صفحہ 495، مطبوعہ عالم الکتب)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم