
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ عموما قبرستان میں قبروں پر کتبے لگے ہوئے ہوتے ہیں، جس میں میت کا نام تاریخ وفات وغیرہ لکھی ہوئی ہوتی ہے، اس پر میرے دو سوال ہیں (1) کیا قبروں پر کتبے لگانا جائز ہے؟ (2)ان کتبوں پر لکھنا جائز ہے ؟ اگر لکھنا جائز ہے تو جامع ترمذی کی حدیث 1052 میں ہے کہ نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے قبروں پر لکھنے سے منع فرمایا، اس کا کیا معنی ہے؟ کیا یہ حدیث صحیح ہے ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
(1) قبر پر کتبے لگانا بالکل جائز اور مستحب عمل ہے، زمانۂ رسالت مآب سے لے کر اب تک مسلمانوں کا اس پر بلا نکیر عمل ہے، ائمہ اسلام نے اس کے مستحسن ہونے کی صراحت کی ہے۔
امام ابو داؤدرحمہ اللہ تعالی اپنی سند کے ساتھ لکھتے ہیں:
’’عن كثير بن زيد المدني عن المطلب قال: لما مات عثمان بن مظعون أخرج بجنازته فدفن فأمر النبي صلى اللہ عليه وسلم رجلا أن يأتيه بحجر، فلم يستطع حملها، فقام إليها رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم وحسر عن ذراعيه، قال كثير: قال المطلب: قال الذي يخبرني ذلك عن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: كأني أنظر إلى بياض ذراعي رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم حين حسر عنهما، ثم حملها فوضعها عند رأسه، وقال: أعلم بها قبر أخي، وأدفن إليه من مات من أهلي‘‘
ترجمہ: حضرت کثیر بن زید مدنی حضرت مطلب رحمہما اللہ تعالی سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم جنازے کے ساتھ چلے اور انکی تدفین فرمائی، پھر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو پتھر لانے کا حکم دیا، تو وہ شخص پتھر نہ اٹھا سکا، تو خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اس کی جانب اٹھے اور اپنے ہاتھوں سے کپڑا ہٹایا، کثیر کہتے ہیں کہ مطلب نے کہا: جس(صحابی) نے مجھے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے اس عمل کے بارے میں بتایا وہ فرماتے ہیں: گویا میں حضور علیہ السلام کے بازؤوں کی سفیدی ابھی بھی دیکھ رہا ہوں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کپڑا ہٹایا تھا، پھر حضور علیہ السلام نے اس پتھر کو اٹھایا اور ان کےسرہانے کے پاس رکھا اور فرمایا: اس پتھر کے ذریعے میں اپنے بھائی کی قبر کو جانوں گا اور جو میرے اہل میں سے وفات پائے گا اسے اس کے قریب دفن کروں گا۔ (سنن ابو داؤد، جلد 3، حدیث 3206، صفحہ212، مطبوعہ بیروت )
سنن ابن ماجہ میں ہے:
’’عن أنس بن مالك، أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أعلم قبر عثمان بن مظعون بصخرة‘‘
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ السلام نے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی قبر پر ایک چٹان سے نشانی لگائی۔ (سنن ابن ماجہ، جلد1، حدیث1561، صفحہ498، دار احیاء التراث)
علامہ بدر الدین عینی الحنفی رحمہ اللہ تعالی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
’’وفي الحديث من الفقه جوازُ وَضْع الحجارة ونحوها عند القبر للعلامة۔۔وفي هذا المعنى ما يفعله الناس من وضع الألواح على القبور ونصبها عند رؤوس الموتى للعلامة‘‘
ترجمہ: اس حدیث سے قبر کے پاس پتھر یا کوئی اور چیزعلامت کیلئے رکھنے کا جواز معلوم ہوتا ہے، اور لوگ جو قبروں کے پاس تختیاں رکھتے اور انہیں مردوں کے سروں کے پاس نشانی کیلئے نصب کرتےہیں وہ بھی اسی معنی و مفہوم میں داخل ہیں۔ (شرح سنن ابو داؤد للعینی، جلد 6، صفحہ 157، مکتبۃ الرشد)
حافظ ابن رسلان رحمہ اللہ تعالی شرحِ سنن ابو داؤد میں فرماتے ہیں ہیں:
’’فيه دليل على أنه يستحب أن يوضع عند رأس القبر صخرة أو خشبة ونحوها ليعرف القبر بها إذا قصد للزيارة‘ ‘
ترجمہ: اس حدیثِ مبارکہ میں دلیل ہے کہ قبر کے سرہانے کوئی پتھر یا لکڑی وغیرہ رکھنا مستحب ہے تاکہ جس کا زیارت کا قصد ہو وہ اس کے ذریعے قبر کو پہچان سکے۔ (شرح سنن ابو داؤد لابن ارسلان، جلد13، صفحہ506، دار الفلاح)
فقہائے احناف میں سے امام رضی الدین سرخسی رحمہ اللہ تعالی اور امام ابن مازه بخاری رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
واللفظ للاول ’’ولا بأس بحجر او آجر بوضع علیہ‘‘
ترجمہ: اور قبر پر پتھر یا اینٹ رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ (المحیط الرضوی، جلد1، صفحہ 469، دار الکتب العلمیہ، المحیط البرھانی، جلد2، صفحہ193، دار الکتب العلمیہ)
علامہ طحطاوی حنفی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:
’’وقد اعتاد أهل مصر وضع الأحجار حفظا للقبور عن الإندارس والنبش ولا بأس به‘‘
ترجمہ: اور تحقیق مصر والے قبروں پر پتھر رکھنے کے عادی ہیں تاکہ قبروں کے مٹنے اور اکھڑنے سے حفاظت ہو اور اس میں کوئی حرج نہیں۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، صفحہ611، دار الکتب العلمیہ)
حافظ ابن حجر ہیتمی مکی شافعی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
’’أن وضع شيء يعرف به القبر مستحب‘‘
ترجمہ: قبر پرکوئی ایسی چیز رکھنا جس سے قبر کی پہچان ہو مستحب ہے۔ (الفتاوی الفقھیہ الکبری، جلد2، صفحہ12، المکتبۃ الاسلامیہ)
(2) ان كتبوں پر لکھنا بھی بالکل جائز ہے، البتہ لکھنے میں اس بات کی احتیاط برتی جائے کہ جو کچھ لکھا گیا ہے اس کی بے ادبی سے بچا جاسکے، اور اس کے جواز کی دلیل ائمہ مسلمین اور عامۃ المسلمین کا تعامل ہے، جامع ترمذی شریف کی حدیث اسی پر محمول ہے کہ ایسے مقام پر اور ایسی باتیں اس طرح سے نہ لکھی جائیں جن سے مقدس کلمات کی توہین ہوتی ہو، اگر ایسا نہ ہو جیسا کہ بزرگان دین کی قبروں پر مختلف تحریر ہوتی ہیں جن میں آیات و اسمائے مقدسہ ہوتے ہیں لیکن چونکہ ان کی بے ادبی نہیں ہوتی تو ان کا لکھنا بالکل جائز ہے، اسی طرح عامۃ المسلمین کی قبروں پر بھی ان کے نام ونسب اور تاریخ وفات وغیرہ لکھی ہوتی ہے یہ لکھنا بھی بطور حاجت جائز ہے۔
البتہ عامۃ الناس کی قبروں پر مقدس کلمات لکھنے سے گریز کرنا چاہیے، لیکن اگر یہ کلمات اس طرح لکھے گئے جس سے بے ادبی نہ ہوتی ہو تو ان پر بھی لکھنا بلا کراہت جائز ہے ، ائمہ اسلام نے ان مقدس کلمات کو لکھنے سے جو منع فرمایا اس کی وجہ بے ادبی کا اندیشہ ہے لیکن اول تو یہ ممانعت کراہت تنزیہی کا درجہ رکھتی ہے جیسا کہ علما نے مسجد کی دیواروں پر قرآنی آیات لکھنے کے حوالے سے ارشاد فرمایا، دوسرا عموما اس وقت یہ صورت ہوتی تھی کہ یہ کتبے پہلے مٹی کے ہوتے تھے جن سے ان مقدس ناموں کے الفاظ جھڑ کر گرتے تھے اب ہمارے یہاں عام طور پر ماربل کے کتبے ہوتے ہیں جس میں اس بات کا اندیشہ کم ہوتا ہے، لہذا یہ علت باقی نہ رہی تو لکھنے میں حرج نہ ہوا۔ اور اس پر بھی دلیل دنیا بھر کے علمائے اسلام اور مسلمانوں کا عمل ہے البتہ دو چیزیں باقی رہ گئیں، ایک گرد پڑنا اور دوسرا بارش کے پانی کا اس پر لگ کر بہنا۔ ان دوچیزوں کا حل یہ ہے کہ کتبے کی لکھائی پر مضبوط قسم کی پلاسکٹ کوٹنگ چڑھا دی جائے تو یہ مسئلے بھی باقی نہ رہیں گے۔
حافظ حاکم نے مستدرک میں لکھا ہے:
’’إن أئمة المسلمين من الشرق إلى الغرب مكتوب على قبورهم، وهو عمل أخذ به الخلف عن السلف“
ترجمہ: مشرق ومغرب کے ائمۂ مسلمین کی قبروں پر لکھا ہوا ہوتا ہے، اور یہ ایک ایسا عمل ہے جسے خلف نے سلف سے اخذ کیا ہے۔ (المستدرک علی الصحیحین رقم 1370طبع دار الحرمین)
حاکم کے حوالے سے حافظ ذہبی کے شیخ امام ابن دقیق العید رحمۃ اللہ تعالی علیہم نے اسی طرح ابن تیمیہ کے شاگرد ابن عبد الہادی نے بھی اس بات كو نقل كيا اور برقرار رکھا ہے۔ اس طرح حافظ ابن الملقن رحمہ اللہ تعالی نے بھی اسے نقل فرما کر برقرار رکھا ہے۔ (البدر المنیر جلد 5 صفحہ 321 طبع دار الہجرۃ، الالمام باحادیث الاحکام جلد 1 صفحہ 293 طبع دار النوادر، المحرر فی الحدیث جلد 1 صفحہ 324 طبع دار المعرفہ )
علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ رد المحتار میں لکھتے ہیں:
’’فقد وجد الاجماع العملی بھا۔۔فان ائمۃ المسلمین من المشرق الی المغرب مکتوب علی قبورھم وھو عمل أخذ بہ الخلف عن السلف‘‘
ترجمہ: تحقیق اس پر اجماع عملی ہے کیونکہ مشرق سے مغرب تک ائمہ مسلمین کی قبروں پر لکھا ہوا ہے اور یہ وہ عمل ہے جو خلف نے سلف سے اخذ کیا ہے۔ (رد المحتار، جلد2، صفحہ238، دار الفکر)
علامہ طیبی رحمۃ اللہ تعالی علیہ جامع ترمذی کی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’يكره كتابة اسم الله ورسوله، والقرآن علي القبر؛ لئلا يهان بالجلوس عليه، ويداس عند الانهدام‘‘
ترجمہ: اللہ پاک کا نام اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا نام(اسی طرح)قرآن کریم (کی آیات وغیرہ) قبر پر لکھنا مکروہ ہے تاکہ ان پر بیٹھنے کے سبب یاقبر کے گرنے کی صورت میں ان ناموں کے پاؤں تلے روندے جانے کی وجہ سے بے ادبی نہ ہو۔ (شرح الطيبي جلد 4 صفحه 1410 طبع نزار مصطفى مكة المكرمة)
علامہ مظہر الدین الزیدانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں:
’’ يعني: مكروهٌ أن يكتب اسم الله واسمُ رسوله والقرآنُ على القبور؛ لأنه ربما يبولُ عليه الكلب وغيره من الدواب، وربما يضع عليه أحد رجليه، وتُلقي الريح التراب عليه‘‘
ترجمہ: یعنی اللہ پاک کا نام اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا نام اور قرآن کی(کسی آیت وغیرہ کا) قبروں پر لکھنا مکروہ ہے کیونکہ بعض اوقات کتا یا دیگر جانور قبر پر پیشاب کر دیتے ہیں، اور بسا اوقات کوئی شخص قبر پر اپنا پاؤں رکھ دیتا ہے، اور ہوا وہاں مٹی ڈال دیتی ہے۔ (المفاتيح شرح المصابيح جلد 2 صفحه 452 طبع دار النوادر)
علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ تعالی سنن النسائی پر اپنے حاشیہ میں فرماتے ہیں :
’’ قال العراقي: يحتمل أن المراد مطلق الكتابة كتابة اسم صاحب القبر عليه أو تاريخ وفاته، أو المراد كتابة شيء من القرآن وأسماء الله تعالى للتبرك؛ لاحتمال أن يوطأ أو يسقط على الأرض فيصير تحت الأرجل ‘‘
ترجمہ: حافظ عراقی رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ یہ احتمال بھی موجود ہے کہ مطلق کتابت سے مراد صاحب قبر کا نام یا اس کی تاریخ وفات قبر پر لکھنا ہو، یا قرآن کی آیات وغیرہ اور اللہ تبارک وتعالی کے نام برکت کے لئے لکھنا مراد ہو، اس احتمال کی بنا پر کہ انہیں روندا جائے گا یا وہ زمین پر گرجائیں گے تو وہ پاؤں تلے آئیں گے۔ (زھر الربی علی المجبتی جلد 4 صفحہ 87 طبع مکتبۃ المطبوعات الاسلامیہ حلب)
حضرت علامہ علی قاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:
’’قال ابن حجر: وأخذ أئمتنا أنه يكره الكتابة على القبر سواء اسم صاحبه أو غيره في لوح عند رأسه، أو غيره، قيل: ويسن كتابة اسم الميت لا سيما الصالح ليعرف عند تقادم الزمان ; لأن النهي عن الكتابة منسوخ كما قاله الحاكم أو محمول على الزائد على ما يعرف به حال الميت اهـ. وفي قوله: يسن محل بحث، والصحيح أن يقال: إنه يجوز ‘‘
ترجمہ: علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: ہمارے ائمہ سے یہ بات ثابت ہے کہ انہوں نے قبر پر لکھنے کو مکروہ قرار دیا ہے خواہ صاحب قبر کا نام ہو یا اس کے علاہ کسی کا، چاہے میت کے سر کی تختی پر لکھا جائے یا کسی اور جگہ، کہا گیا ہے: کہ میت کا نام لکھنا بالخصوص نیک لوگوں کا مسنون ہے، تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ ان کی پہچان رکھی جائے کیونکہ لکھنے کی ممانعت منسوخ ہوگئی ہے، جیسا کہ امام حاکم بھی اسی کے قائل ہیں، یا یہ محمول ہے اس کے علاوہ اس زائد چیز پر جس کے ذریعے میت کا حال معلوم ہو، اور ان کا یہ قول"یسن"بحث کا محل ہے، اور درست یہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ جائز ہے۔ (مرقاة المفاتيح جلد 3 صفحه 1223 طبع مكة المكرمة)
بحر الرائق میں ہے:
’’وإن احتيج إلى الكتابة حتى لا يذهب الأثر ولا يمتهن فلا بأس به فأما الكتابة من غير عذر فلا ‘‘
ترجمہ: اگر لکھنے کی حاجت ہو حتی کہ اس کا اثر نہ جائے اور نہ اس کی اہانت ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ بہر حال بلا عذر نہ لکھا جائے۔ (بحر الرائق، جلد2، صفحہ209، دار الکتاب)
بہارِ شریعت میں ہے: ’’اگر ضرورت ہو تو قبر پر نشان کے ليے کچھ لکھ سکتے ہیں، مگر ایسی جگہ نہ لکھیں کہ بے ادبی ہو۔ ‘‘ (بھار شریعت، جلد1، صفحہ846، مکتبۃ المدینہ )
مسجد کی دیوار پر لکھنے کے حوالے سے بحر الرائق، مجمع الانہر ، نہایہ اور بنایہ میں ہے:
واللفظ للاول: ’’ وليس بمستحسن كتابة القرآن على المحاريب و الجدران لما يخاف من سقوط الكتابة وأن توطأ ‘‘
ترجمہ: اور محرابوں اور دیواروں پر قرآن لکھنا مستحسن نہیں، کیونکہ اس میں اس کتابت کے گرنے اور روندے جانے کا خوف ہے۔ (البحر الرائق جلد 2 صفحہ 40 طبع دار الکتاب الاسلامی، مجمع الانہر جلد 1 صفحہ 127 طبع دار احیاء التراث، البنایہ جلد 1 صفحہ 651 طبع بیروت، النہایۃ جلد 3 صفحہ 102 طبع مرکز الدراسات)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"ولو کتب القرآن علی الحیطان والجدران بعضھم قالوا یرجی ان یجوز و بعضھم کرھوا ذلک مخافۃ السقوط تحت اقدام الناس کذا فی فتاوی قاضیخان"
یعنی: اگردیواروں پر قرآن پاک لکھا جائے تو بعض علماء نے فرمایا کہ امید ہے کہ یہ جائز ہو جبکہ بعض علماء نے اسے مکروہ قرار دیا کیونکہ یہ خدشہ ہے کہ اس کے ذرات لوگوں کے پیروں کے نیچے گریں گے۔ (الفتاوی الھندیۃ، جلد 05، صفحہ 399، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
وقار الفتاوی میں مفتی وقار الدین علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: "قرآن و حدیث کو مسجد کی دیواروں یا دوسری دیواروں پر لکھنے کی صراحتاً تذکرہ نہیں ہے، مگر شریعت کا ایک قانون ہے کہ "اشیاء میں اصل اباحت ہے" جب تک کسی کام کی قرآن و حدیث سے حرمت ثابت نہ ہو وہ کام جائز رہتا ہے۔ لہٰذا اس اصول کی بناء پر آیات قرآنیہ کو دیوار پر لکھنا جائز ہے، سیکڑوں برس سے مسجد نبوی کی دیواروں پر آیات قرآنیہ لکھی ہوئی ہیں، جہاں دنیا بھر کے بڑے بڑے علماء اور بزرگان دین حاضری دیتے رہے۔ مگر کسی سے اس بارے میں کوئی اعتراض منقول نہیں ہے۔ مسجد کی دیواروں پر لکھنے کے بارے میں یہی دلیل کافی ہے، جن فقہاء نے مسجد کی دیواروں میں لکھنا پسند نہیں کیا ان کی دلیل یہ تھی کہ حروف کے زمین پر گرنے سے ان کی توہین کا پہلو نکلتا تھا۔ مگر اس وقت کی بات ہے کہ جب دیواروں پر مٹی سے لیپائی کی جاتی تھی۔ اور وہ مٹی گرجایا کرتی تھی۔ اب بھی اگر کہیں مٹی سے لیپائی ہوتی ہے تو اسی اصول کو اپنایا جائے گامگر عام طور پر اب یہ طریقہ ختم ہوچکا ہے۔ پتھروں پر کندہ کراکر اس میں مصالحہ بھرا جاتا ہے۔ ان کے گرنے کا احتمال نہیں ہوتا۔ لہٰذا اب یہ شبہ ختم ہوچکا۔ مسجد کی دیواروں کی علاوہ دوسری دیواروں میں لکھنے کے متعلق میں صراحتاً موجود ہے۔ " (وقار الفتاوی، جلد 02، صفحہ527، 528، بزم وقار الدین، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: ابو حمزہ محمد حسان عطاری
مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: HAB-623
تاریخ اجراء: 24 صفر المظفر1447ھ/18 اگست2025ء