اللہ سے وعدہ کر کے توڑ دیا تو کیا کفارہ لازم ہوگا؟

اللہ سے وعدہ کر کے توڑ دیا تو کفارہ ہوگا؟

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:FAM-643

تاریخ اجراء:20 رجب المرجب1446ھ/21 جنوری 2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی بات پر اللہ تعالی سے وعدہ کیا جائے،اور پھر وعدہ خلافی ہوجائے تو کیا حکم ہے،کیا کوئی کفارہ ہوگا یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر وعدہ صرف وعدہ ہی تھا، شرعی قسم یا منت نہیں تھی،تواس صورت میں وعدے کے خلاف کرنے کے سبب کفارہ تو لازم نہیں ہوگا،البتہ جس کام کا اللہ عزوجل سے   وعدہ کیا  جائے   اور پھر وہ  کام   بغیر کسی مجبوری کے  نہ کیا جائے، تو یہ    بہت بُرا   عمل ہے، بلکہ اگر وہ وعدہ  کسی  گناہ  سے بچنے یا کسی  فرض و واجب کام  کی ادائیگی  کے متعلق  ہو،تو اس صورت میں وعدہ خلافی کرنے والا سخت گنہگار بھی     ہوگاکہ گناہ  کرنا، یا  فرض وواجب  کام کو نہ کرنا   خود   ہی ایک  گناہ  ہے، اور دوسرا  یہ اللہ عزوجل سے وعدہ خلافی بھی ہے، اور  اللہ عزوجل سے وعدہ کرکے پھرجانا  بہت سخت ہے اور اس پر  شدید وعید آئی ہے اور  یہ  منافقین کا طرز عمل  ہے۔ بہرحال ایسا کرنے والے کو چاہئے کہ وہ اللہ عزوجل  کی بارگاہ  میں  اپنے گناہ  سے سچی   توبہ کرے اور آئندہ جو بھی وعدہ کرے  اُسے ضرور پورا کرے۔

   وعدے کو پورا کرنے کے بارے میں ارشاد باری تعالی ہے: ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ‘‘ ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! تمام عہد پورے کیا کرو۔(القرآن، پارہ 6، سورۃ المائدۃ: 1)

   ایک اور فرمان باری تعالی ہے: ’’وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ- اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا‘‘ ترجمہ: کنز العرفان: اور عہد پورا کرو بیشک عہد کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔(القرآن، پارہ 15، سورۃ بنی اسرائیل: 34)

   مذکورہ آیت کے تحت تفسیر روح البیان میں ہے: ’’وَ أَوْفُوا بِالْعَهْدِ سواء جرى بينكم و بين ربكم او بينكم و بين غيركم من الناس‘‘ ترجمہ: اور وعدے کو پورا کرو، چاہے وہ    تمہارے اور  تمہارے رب کے درمیان ہو، یا چاہے وہ تمہارے اور لوگوں میں  سے کسی شخص کے  درمیان  ہو۔(تفسیر روح البیان، جلد 5، صفحہ 155، دار الفکر، بیروت)

   اللہ عزوجل سے وعدہ خلافی کرنا منافقین کا طرز عمل ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: ’’فَاَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِیْ قُلُوْبِهِمْ اِلٰى یَوْمِ یَلْقَوْنَهٗ بِمَاۤ اَخْلَفُوا اللّٰهَ مَا وَعَدُوْهُ وَ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ(77)‘‘ ترجمہ کنز العرفان: تو اللہ نے انجام کے طور پر اس دن تک کے لئے ان کے دلوں میں منافقت ڈال دی جس دن وہ اس سے ملیں گے کیونکہ انہوں نے اللہ سے وعدہ کرکے وعدہ خلافی کی اور جھوٹ بولتے رہے۔ (القرآن، پارہ 10، سورۃ التوبۃ: 77)

   اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے:’’امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ عہد شکنی اور وعدہ خلافی سے نفاق پیدا ہوتا ہے تو مسلمان پر لازم ہے کہ ان باتوں سے اِحتراز کرے اور عہد پورا کرنے اور وعدہ وفا کرنے میں پوری کوشش کرے۔‘‘ (تفسیر صراط الجنان، جلد 4، صفحہ 188، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن  فتاوی رضویہ میں ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں :’’اس لفظ سے کہ''(کہ یہ گائے)اﷲ کی نذر کریں گے'' نذر نہ ہوئی محض وعدہ ہوا، اور وہ کہنا کہ''پال کر ننھی کودیں گے'' اس سے بھی ہبہ نہ ہوا یہ بھی ایک ارادہ کا اظہار تھا، مگر اﷲ عزوجل سے جووعدہ کیا اس سے پھرنا بھی ہرگز نہ چاہئے، قرآن عظیم میں اس پر سخت وعید فرمائی ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 13، صفحہ 581، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   مزید ایک جگہ سوال کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ”اگر اپنی قربانی کی کھال مدر سہ میں دینے کو کہی تھی پھر نہ دی تو بیجاہے، مگر چنداں الزام نہیں، جبکہ کسی عذر شرعی سے ایسا کیا  ہو، ورنہ اﷲعزوجل سےوعدہ خلافی ہے، چنانچہ نتیجہ بہت شدید ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 6، صفحہ 551، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   ایک دوسرے مقام  پرسیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں: ”اﷲ واحد قہار سے وعدہ کرکے پھرنا بہت سخت ہے اوراس پر شدید وعید(وارد ہے)۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 16، صفحہ 481، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم