
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان ِ شرع متین اس مسئلہ میں کہ میں نے منت مانی تھی کہ ’’میرا فلاں کام ہوجائے تو میں دربار میں جا کر دیگ دوں گی۔‘‘ اب میں چاہتی ہوں کہ وہ دیگ مدرسے میں دے دیدوں۔کیا مدرسے میں دینے سے میری منت ادا ہوجائے گی؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مزار پر جاکر دیگ دینے سے عرفِ عام میں وہاں موجود زائرین، مجاورین و خادمین کو کھانا کھِلانا اور صاحبِ مزار کو اس کا ثواب ایصال کرنا مقصود ہوتا ہے۔تو یہ ایصالِ ثواب کی منت ہے ۔جو منت شرعی فقہی نہیں بلکہ عرفی ہے۔اس کا پورا کرنا بھی بہتر و مستحسن ہے۔البتہ لازم نہیں۔لہٰذا پورا نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں۔یونہی مزار ہی پر دیگ دینا لازم نہیں، بلکہ مدرسہ میں دے کر بھی صاحبِ مزار کو ایصالِ ثواب کیا جاسکتا ہے۔
یاد رہے کہ عورتوں کا مزار پر جانا منع ہے، لہذا مزار پر دیگ دینے کی صورت میں بھی اسلامی بہن کو وہاں جانے کی اجازت نہیں۔
اس کی تفصیل یہ ہےکہ :
مزار پرکوئی شے دینے کی جو منت مانی جاتی ہے وہ عموماً صاحبِ مزار کی نذر کرنا مقصود ہوتی ہے یعنی ان کی بارگاہ کی نذر کرنا، ہدیہ کرنا ،ان کی روح کو ایصالِ ثواب کرنا، تو یہ نذر فقہی نہیں ہوتی اور شرعاً منعقد نہیں ہوتی۔ جد الممتار میں ہے:
’’قولہ(لابد أن یکون المنذور مما یصح بہ النذر کالصدقۃ بالدراھم ونحوھا،أما لو نذر زیتاً لایقاد قندیل فوق ضریح الشیخ أو فی المنارۃ کما یفعل النساء من نذر الزیت لسیدی عبد القادر ویوقد فی المنارۃ جھۃ المشرق فھو باطل) لا ینعقد نذراً ولا یلزم من ذلک حرمتہ فان النذور لھم بعد تجافیھم عن الدنیا کالنذور لھم وھم فیھا وھی شائعۃ بین المسلمین والعلماء والصلحاء والأولیاء منذ قدیم ولیس نذراً مصطلح الفقہ‘‘
ترجمہ:علامہ شامی کا قول(جس شے کی منت مانی جائے اس کا ان میں سے ہونا ضروری ہےجن کی نذر درست ہوتی ہے جیسے دراہم وغیرہ کو صدقہ کرنا، ہاں اگر کسی نے شیخ کے مزار پر یا منارہ پر چراغ جلانے کے لیے تیل دینے کی منت مانی جیسا کہ خواتین سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے(مزارکے) لیے تیل کی نذرمانتی ہیں اور منارہ میں مشرق کی طرف چراغ جلایا جاتا ہے تو یہ باطل ہے) (امام اہل سنت فرماتےہیں )نذر منعقد نہیں ہوتی اور اس سے اس کی حرمت لازم نہیں آتی کہ اولیاء اللہ کےلیے نذور ان کے دنیا سے پردہ فرماجانے کے بعد بھی ویسی ہی ہیں جیسا ان کے دنیا میں ظاہر ِ حیات کے وقت ہوتی ہیں اور یہ مسلمانوں ، علماء، صلحاء اوراولیاء کے مابین زمانہ دراز سے رائج ہے، (ہاں) یہ نذرِ فقہی نہیں۔ (جد الممتار،جلد3،صفحہ290، 291، مکتبۃ المدینہ ، کراچی)
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فتاوی امجدیہ میں فرماتے ہیں:’’بزرگانِ دین کو جو ایصال ثواب کیا جاتا ہے اسے مسلمان براہِ ادب نذر و نیاز کہتے ہیں یہ فعل بھی جائز و مستحسن ہے۔۔۔۔۔ زائرین جو چیزیں مزارات بزرگان دین پر حاضر لاتے ہیں،ان سے مقصود صاحبِ مزار کی روح کو ایصالِ ثواب ہوتا ہے اور اس کو براہِ ادب عرف میں نذر بولتےہیں یہ نذر نذرِ شرعی نہیں بلکہ عرفی ہے ۔۔۔۔۔اس نذر سے صاحبِ مزار کو مالک کرنا مقصود نہیں ہوتا کہ تملیک کے احکام حیاتِ ظاہری کے ساتھ خاص ہیں بعدِ وفات وہ احکام جاری نہ ہوں گے جو احیاء کے ساتھ خاص ہیں بلکہ اس سے مقصود متوسلین آستانہ کی خدمت کرکے صاحبِ مزار کو ثواب پہنچانا ہے امام اجل سیدی عبد الغنی نابلسی رحمہ اللہ حدیقہ ندیہ میں فرماتے ہیں:
ومن ھذا القبیل زیارۃالقبور والتبرک بضرائح الاولیاء والصالحین والنذر لھم بتعلیق ذلک علی حصول شفاء أو قدوم غائب فانہ مجاز عن الصدقۃ علی الخادمین لقبورھم کما قال الفقھاء فیمن دفع الزکاۃ وسماھا قرضاً صح لان العبرۃبالمعنی
یعنی اس قبیل سے ہےزیارتِ قبور اور مزارات اولیاء صلحاء سے برکت لینا اور بیمار کی شفا یا مسافر کے آنے پر اولیاء گزشتہ کے لیے منت ماننا کہ وہ ان کے خادمان قبور پر صدقہ سے مجاز ہے ،جیسے فقہاء نے فرمایا ہےکہ فقیر کو زکوٰۃ دے اور قرض کانام لے تو صحیح ہو جائے گی کہ اعتبار معنی کا ہے لفظ کا نہیں۔‘‘(فتاوی امجدیہ،جلد 2، صفحہ309، 314،مطبوعہ کراچی)
اور جب یہ شرعی منت نہیں تو اس کا پورا کرنا لازم نہیں، مجمع الانھر میں ہے:
’’لم یلزم الناذر ما لیس من جنسہ فرض کقراءۃ القرآن وصلاۃ الجنازہ ودخول المسجد وبناء المسجد “
ترجمہ:جن اشیاء کی جنس سے کوئی فرض نہ ہو ان کا پورا کرنا نذر ماننے والے پر لازم نہیں جیسے قراءت قرآن، نمازِ جنازہ، دخولِ مسجد اور تعمیر ِ مسجد۔ (مجمع الأنھر ،جلد1،صفحہ547،دار احیاء التراث العربی)
اور پورا نہ کریں تو کوئی گناہ نہیں۔فتاوی بحر العلوم میں ہے:’’اور بزرگوں کو ایصال ثواب کرنے یا ان کی قبروں پر پھول یا چادر ڈالنے کی منت شرعی نہیں۔یہ چیزیں کردیں تو ٹھیک ہے،نہ کیا تو کوئی گناہ نہیں۔‘‘ (فتاوی بحر العلوم،جلد1،صفحہ478،شبیر برادرز ، لاھور)
فتاوی بحر العلوم ہی میں ہے:’’مسئلہ(1)اگر کسی نےمنت مانی کہ اگر میرا لڑکا اچھا ہوجائے تو شیرنی یا زردہ پکا کرمسجد میں بھیجوں گا آیا یہ منت صحیح ہےیا نہیں؟۔۔۔۔۔الجواب:سوال میں ذکر کی ہوئی منتیں عبادات مقصودہ اور از قبیل واجبات نہیں، اس لیے منت مان لینے کے بعد بھی ان کا وہی حکم رہے گا کہ کرو تو ثواب اور نہ کرو تو کوئی گناہ نہیں ۔ ‘‘(فتاوی بحر العلوم،جلد4،صفحہ443،شبیر برادرز ، لاھور)
لیکن کسی بھی صورت میں دربار پر ہی دیگ دینا لازم نہیں ، بلکہ کہیں اور بھی دی جاسکتی ہے کہ نذر فقہی کی صورت میں جب جگہ متعین کرنے سے بھی متعین نہیں ہوتی تو نذر عرفی میں تو بدرجہ اولیٰ نہیں ہوگی ۔فتح القدیر میں ہے:
’’ولو نذر أن یتصدق علی فقراء مکۃ فتصدق علی غیرھم جاز لأن لزوم النذر انما ھو قربۃ وذلک بالصدقۃ فباعتبارھا یلزم لا بما زاد وأیضا الصرف الی کل فقیر صرف الی اللہ تعالی فلم یختلف المستحق فیجوز‘‘
ترجمہ:اگر کسی نے نذر مانی کہ وہ فقرائے مکہ پر صدقہ کرے گا پھرکسی اور مقام کے فقراء پر صدقہ کردیا تو جائز ہے، کیونکہ نذر کا لزوم قربت ہونے کے اعتبار سے ہوتا ہے اور یہ (قربت)صدقہ سے ہی ہےتو صدقہ کے اعتبارسے ہی نذر لازم ہوگی مزید کسی شے کی نہیں،اور یہ بھی کہ کسی بھی فقیر کو دینااللہ کی راہ میں خرچ ہے تو مستحق مختلف نہ ہوا لہذا جائز ہے۔(فتح القدیر ،جلد2، صفحہ281،دار الفکر، بیروت)
نیزبدائع میں ہے:
’’ والصدقۃ لاتختص بمکان کسائر الصدقات‘‘
ترجمہ:اورصدقہ کسی مکان کے ساتھ خاص نہیں ہوتا جیسے دیگر صدقات۔(بدائع الصنائع،جلد2،صفحہ224،دار الکتب العلمیہ)
اورفتاوی خلیلیہ میں ہے:’’اور صدقات کو مزار پر لیجانے سے مقصود وہاں کے خدام و فقراء کی اعانت ہوتی ہے لہذا ایسا کرنے میں کوئی گناہ و ممانعت نہیں۔ہاں چونکہ یہ نذر شرعی نہیں اس لیے مزار پر جاکر اسے پورا کرنا لازم نہیں۔“ (فتاوی خلیلیہ،جلد1،صفحہ141، ضیاء القرآن)
عورتوں کے قبور پر جانے کی مطلقاً ممانعت کے متعلق امام اہل سنت فرماتے ہیں:”اقول : ( میں کہتا ہوں ) قبورِ اقرباء پر خصوصاً بحال قرب عہد ممات تجدید حزن لازم نساء ہے اور مزاراتِ اولیاء پر حاضری میں احد الشناعتین ( یعنی دو خرابیوں میں سے ایک ) کا اندیشہ یا ترکِ ادب یا ادب میں افراط ناجائز ، تو سبیل اطلاق منع ہے ولہٰذا غنیہ میں کراہت پر جزم فرمایا ، البتہ حاضری و خاکبوسی آستان عرش نشان سرکارِ اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم اعظم المندوبات ، بلکہ قریبِ واجبات ہے ، اس سے نہ روکیں گے اور تعدیلِ ادب سکھائیں گے ۔ “ ( فتاویٰ رضویہ ، جلد 9 ، صفحہ 538 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: HAB-0039
تاریخ اجراء: 8رجب المرجب1444ھ/31جنوری 2023ء