
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
اگر میاں بیوی کا آپس میں جھگڑا ہو اور بیوی شوہر کو کہہ دے کہ "تیرے پیسے مجھ پر حرام ہیں" اس بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں اگر بیوی نے شوہرکے مال کواپنے اوپرحرام کرنے کے لیے یہ جملہ بولاتویہ قسم ہے اور اگر جوشرعی حکم ہے کہ بغیراجازت کسی کامال استعمال کرناحرام ہے، اس شرعی حکم کی خبردینے کے لیے بولاہے تویہ قسم نہیں ہے، (یعنی شرعی حکم کے لحاظ سے کسی کامال اس کی اجازت کے بغیراستعمال کرناحرام ہوتاہے، تواگربیوی نے اس شرعی حکم کی خبردینے کے لیے یہ جملہ بولاتب تویہ قسم نہیں اور اگر اس نے خبردینے کی نیت سے نہیں بلکہ اپنے اوپرحرام کرنے کی نیت سے بولاتوتب یہ قسم ہے) لہذاجس صورت میں قسم واقع ہوگی، اس صورت میں اگر بیوی شوہر کے پیسے استعمال کرے گی تو اس پر قسم کا کفارہ لازم آئے گا۔
قسم کے کفارے کی تفصیل:
قسم توڑنے والے پر قسم کے کفارے میں ایک غلام آزاد کرنا یا دس مسکینوں کو کپڑے پہنانا یا انہیں دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلانا لازم ہوتا ہے اور اسے اس بات کا بھی اختیار ہوتا ہے کہ چاہے تو کھانے کے بدلے میں ہر مسکین کو الگ الگ ایک صدقۂ فطر کی مقدار یعنی آدھا صاع (دو کلو میں سے اَسی گرام کم) گندم یااس کاآٹا، یا ایک صاع (چار کلو میں ایک سو ساٹھ گرام کم) جَو یااس جوکاآٹایا کھجور یا کشمش دے دے یا ان میں سے کسی کی قیمت کے برابررقم دے دے۔نیز ایک ہی مسکین کو دینا چاہے تو ضروری ہے کہ دس دنوں میں دس صدقۂ فطر کی مقداربرابردے،اور اگر مذکورہ کفاروں میں سے کسی پر بھی قادر نہ ہو تو تین دن لگاتار روزے رکھے۔
تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق میں ہے
"لا يشترط في اليمين أن يكون مالكا له حتى لو قال ملك فلان أو ماله علي حرام يكون يمينا إلا إذا أراد به الإخبار عن الحرمة"
ترجمہ: یمین میں شرط نہیں ہے کہ وہ اس چیز کا مالک ہو یہاں تک کہ اگر اس نے کہا: فلاں کی ملک یا فلاں کا مال مجھ پر حرام ہے تو بھی یمین ہوگی مگریہ کہ اس نے اس کے ذریعے حرمت کی خبردینے کاا رادہ کیا ہو۔ (تبیین الحقائق، جلد 03، صفحہ115 ، المطبعۃ الکبری الامیریۃ)
بہار شریعت میں ہے ”جو شخص کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرے مثلاً کہے کہ فلاں چیز مجھ پر حرام ہے تو اس کہہ دینے سے وہ شے حرام نہیں ہوگی کہ اﷲ (عزوجل) نے جس چیز کو حلال کیا اوسے کون حرام کرسکے مگر اوس کے برتنے سے کفارہ لازم آئیگا یعنی یہ بھی قسم ہے۔ (بہار شریعت، ج 2، حصہ 9، ص 302، مکتبۃ المدینہ)
جوہرہ نیرہ میں ہے
”كفارة اليمين عتق رقبةوإن شاء كسا عشرة مساكين وإن شاء أطعم عشرة مساكين ويجزئ في الإطعام التمليك والتمكين فالتمليك أن يعطي كل مسكين نصف صاع من بر أو دقيقه أو سويقه أو صاعا من شعير أو دقيقه أو سويقه أو صاعا من تمر، و إن أطعم مسكينا واحدا عشرة أيام غذاء وعشاء أجزأه، وإن أعطى مسكينا واحدا طعام عشرة مساكين في يوم واحد لم يجزه، فإن لم يقدر على أحد هذه الأشياء الثلاثة صام ثلاثة أيام متتابعات“
ترجمہ: قسم کا کفارہ ایک غلام آزاد کرنا ہے اور چاہے تو دس مسکینوں کو کپڑے پہنائے اور چاہے تو دس مسکینوں کو کھانا کھلائے اور کھلانے میں مالک بنانا اور قدرت دینا دونوں صورتیں کافی ہیں ۔ مالک بنانا یہ ہے کہ ہر مسکین کو آدھا صاع گندم یا اس کا آٹا یا اس کا ستو یا ایک صاع جَو یا اس کا آٹا یا اس کا ستو یا ایک صاع کھجور دے، اگر ایک مسکین کو صبح شام دس دن کھانا کھلایا تو کفارہ ادا ہو جائے گا، اور اگر ایک ہی مسکین کو دس مسکینوں کا کھانا ایک ہی دن دے دیا تو کفارہ ادا نہیں ہوگا، اگر قسم توڑنے والا شخص مذکورہ تین کفاروں میں سے کسی پر بھی قادر نہ ہو تو تین دن لگاتار روزے رکھے۔ (جوہرہ نیرہ، کتاب الایمان، ج 2، ص 468 تا 470 ملتقطا، مطبوعہ کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: ابو شاہد مولانا محمد ماجد علی مدنی
فتوی نمبر: WAT-3806
تاریخ اجراء: 07 ذو القعدۃ الحرام 1446 ھ/ 05 مئی 2025 ء