بہن بھائیوں سے قطع تعلق کرنے کی قسم کھانا

بہن بھائیوں سے قطع تعلق کرنے کی قسم کھانا

مجیب: مولانا محمد نور المصطفیٰ عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-3761

تاریخ اجراء: 27 شوال المکرم 1446 ھ/26 اپریل 2025 ء

دار الافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   مجھ سے بیوی نے قسم لی تھی مسجد نبوی شریف  میں کہ آپ نے اپنے گھر والوں سے بات نہیں کرنی، میرے بھائی بہن  سب سے بات نہیں کرنی، ان کا کوئی قصور بھی نہیں۔ اب مجھ سے رہا نہیں جاتا بات کیے بغیر۔ میں سعودی عرب میں ہوں توقسم توڑنے کا   کیا حکم ہے؟ رہنمائی کریں

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں آپ پر اپنے بہن بھائیوں سے بات کر کے یہ قسم توڑ دینا لازم ہےلیکن اس کے بعد آپ پر قسم توڑنے کا کفارہ ادا کرنا لازم ہو گا۔ کیونکہ یہ قسم ماں باپ، بہن بھائی وغیرہ ذی رحم محرم رشتہ داروں  سے قطع تعلقی پر ہے جو گناہ کا کام ہے۔ اور ایسی قسم کھانا اور اس پر قائم رہنا شرعا ناجائز و گناہ ہے، اور حدیث میں بھی اس سے ممانعت آئی ہے۔ خصوصا ایسی مقدس جگہ پر موجود ہو کر ایسے گناہ کی قسم کھاکر  اور زیادہ برا کیا۔ لہذا اس کے کفارے کے ساتھ اس سے توبہ بھی ضروری ہے۔

   قسم کا کفارہ:

   قسم کا کفارہ دس شرعی فقیروں کوجوڑے دینا، یا صبح شام دو وقت کا پیٹ بھر کر کھانا کھلانا، یا ایک ایک صدقہ فطر کی مقدار  رقم انھیں دینا ہے یعنی یہ اختیار ہے کہ ان  میں سے جو چاہے کرے۔ اگرایک فقیرکودیناچاہے تودس دنوں میں دے۔ اور جو ان میں سے کسی کی قدرت نہ رکھتاہوتو اسے  کفارے کے لگا تار تین روزے رکھنا لازم ہے۔

   صحیح بخاری شریف وغیرہ کتب احادیث میں ہے:

   ” قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: والله، لأن يلج أحدكم بيمينه في أهله آثم له عند الله من أن يعطي كفارته التي افترض الله عليه“

   ترجمہ:حضور صلی اﷲتعالیٰ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: خدا کی قسم! جو شخص اپنے اہل کے بارے میں قسم کھائے اور اس پر قائم رہے تو اﷲ عزوجل کے نزدیک قسم توڑ کر کفارہ  دینے سے زیادہ گنہگار ہے۔ (صحيح البخاري، جلد 08، صفحہ 128، حدیث نمبر 6625، دار طوق النجاۃ)

   جوہرہ نیرہ میں ہے

   ”كفارة اليمين عتق رقبة و إن شاء كسا عشرة مساكين و إن شاء أطعم عشرة مساكين و يجزئ في الإطعام التمليك و التمكين فالتمليك أن يعطي كل مسكين نصف صاع من بر أو دقيقه أو سويقه أو صاعا من شعير أو دقيقه أو سويقه أو صاعا من تمر، و إن أطعم مسكينا واحدا عشرة أيام غذاء و عشاء أجزأه، و إن أعطى مسكينا واحدا طعام عشرة مساكين في يوم واحد لم يجزه، فإن لم يقدر على أحد هذه الأشياء الثلاثة صام ثلاثة أيام متتابعات“

   ترجمہ: قسم کا کفارہ ایک غلام آزاد کرنا ہے اور چاہے تو دس مسکینوں کو کپڑے پہنائے اور چاہے تو دس مسکینوں کو کھانا کھلائے اور کھلانے میں مالک بنانا اور قدرت دینا دونوں صورتیں کافی ہیں۔ مالک بنانا یہ ہے کہ ہر مسکین کو آدھا صاع گندم یا اس کا آٹا یا اس کا ستو یا ایک صاع جَو یا اس کا آٹا یا اس کا ستو یا ایک صاع کھجور دے، اگر ایک مسکین کو صبح شام دس دن کھانا کھلایا تو کفارہ ادا ہو جائے گا، اور اگر ایک ہی مسکین کو دس مسکینوں کا کھانا ایک ہی دن دے دیا تو کفارہ ادا نہیں ہوگا، اگر قسم توڑنے والا شخص مذکورہ تین کفاروں میں سے کسی پر بھی قادر نہ ہو تو تین دن لگاتار روزے رکھے۔ (جوہرہ نیرہ، کتاب الایمان، ج 2، ص 468 تا 470 ملتقطا، مطبوعہ: کراچی)

   المبسوط للسرخسی میں ہے

   ”و نوع لا يجوز حفظها و هو أن يحلف على ترك طاعة أو فعل معصية لقوله - صلى الله عليه و سلم -: «من حلف أن يطيع الله فليطعه، و من حلف أن يعصي الله فلا يعصه»“

   ترجمہ:قسم کی ایک نوع وہ ہے جس کا پورا کرنا جائز نہیں، اور وہ یہ ہے کہ نیکی چھوڑنے یا گناہ کرنے پر قسم اٹھائے، کیو نکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جو اللہ تعالی کی اطاعت پر حلف اٹھائے تو وہ اطاعت کرے اور جو اس کی نافرمانی پر حلف اٹھائے تو وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔ (المبسوط للسرخسی، ج 8، ص 127، دار المعرفۃ، بیروت)

   قَسموں کی قِسمیں بیان کرتے ہوئے بہار شریعت میں فرمایا: ”دوسری وہ کہ اس کا توڑنا ضروری ہے مثلاً گناہ کرنے یا فرائض و واجبات نہ کرنے کی قسم کھائی جیسے قسم کھائی کہ نماز نہ پڑھوں گا یا چوری کروں گا یا ماں باپ سے کلام نہ کروں گا تو قسم توڑ دے۔“ (بہار شریعت، جلد 02، حصہ 9، صفحہ  299، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   فتاوی رضویہ میں ہے "قسم کا کفارہ لازم ہوگا، کہ دس مسکینوں کو دونوں وقت پیٹ بھر کر کھاناکھلائے، یا دس مسکینوں کو جوڑے دے، یا دس مسکینوں کوفی مسکین ایک صاع جو یا نصف صاع گیہوں یا اس کی قیمت دے۔ صاع سو روپیہ کے سیر سے ایک روپیہ پھراوپر ساڑھے تین سیر ہے؛ اور جس سے یہ نہ ہوسکے وہ تین روزے رکھے۔" (فتاوی رضویہ، جلد 13، صفحہ  507، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم