
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
میرے شوہر نے مجھے اپنی ہمشیرہ کے گھر جانے سے منع کیا اور کہا قسم کھاؤ، تو میں نے کہا "میں قرآن کی قسم کھاتی ہوں کہ آئندہ اپنی ہمشیرہ کے گھر نہیں جاؤں گی" لیکن اب میں بہت پریشان ہوں میں اپنی بہن کے گھر جانا چاہتی ہوں اسے میری ضرورت ہے اور اب میرے شوہر نے بھی مجھے اجازت دے دی ہے تو رہنمائی فرمائیں کہ میں نے جو جملہ بولا اس سے قسم ہو گئی؟ اگر ہو گئی ہے تو اس کا اب کیا حل ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
دریافت کردہ صورت میں آپ نے جو یہ جملہ بولا کہ "میں قرآن کی قسم کھاتی ہوں کہ آئندہ اپنی ہمشیرہ کے گھر نہیں جاؤں گی" اس سے شرعی طور پر قسم واقع ہو چکی ہے کہ قرآن کی قسم کھانا بھی شرعا قسم ہے۔
اور جب کوئی کسی بات پر قسم اٹھا لے اور اس قسم کا خلاف اس کے لئے بہتر ہو تو اسے چاہیے کہ اپنی قسم توڑ دے اور وہ کام کر گزرے جبکہ شرعا اس میں کوئی قباحت نہ ہو اور پھر قسم کا کفارہ ادا کر دے۔ لہذا صورت مسئولہ میں اگر ہمشیرہ کے گھر نہ جانے کی کوئی شرعی وجہ نہیں ہے تو آپ شوہر کی اجازت کے ساتھ اپنی ہمشیرہ کے گھر جاسکتی ہیں کہ یہ صلہ رحمی کے قبیل سے ہے اورصلہ رحمی کا شریعت نے حکم دیا ہے لہذا صورت مسئولہ میں قسم توڑنے میں بہتری ہے، اور اس صورت میں بہن کے گھرچلے جانے کے بعد قسم کا کفارہ ادا کرنا آپ پر لازم ہوگا۔
قسم کا کفارہ:
قسم کا کفارہ دس شرعی فقیروں کوجوڑے دینا، یا صبح شام دو وقت کا پیٹ بھر کر کھانا کھلانا، یا ایک ایک صدقہ فطر کی مقدار رقم انھیں دینا ہے یعنی یہ اختیار ہے کہ ان میں سے جو چاہے کرے۔ اگر ایک فقیرکودیناچاہے تودس دنوں میں دے۔ اور اگر ان میں سے کسی پر قدرت نہ ہو تو کفارے کے لگا تار تین روزے رکھنا لازم ہیں۔
مؤطا امام مالک میں ہے
”عن أبي هريرة؛ أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال: «من حلف بيمين، فرأى خيرا منها، فليكفر عن يمينه، و ليفعل الذي هو خير“
ترجمہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی کام پر قسم کھالے پھر اس کے خلاف کو بہتر سمجھے تو اپنی قسم کا کفارہ دے اور وہ کرے جو بہتر ہے۔ (مؤطا مالک، رقم الحدیث 1738، ج 3، ص 681، مطبوعہ أبو ظبي، الإمارات)
امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے قسم توڑنے کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا:"اگر خلاف کرنے میں شرعاً خیر دیکھے تو خلاف کرے اور کفارہ دے ورنہ بلاوجہ شرعی قسم توڑنا حرام ہے۔" (فتاوی رضویہ، ج 13، ص 507، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
بہارشریعت میں ہے "صلہ رحم کے معنی رشتہ کو جوڑنا ہے یعنی رشتہ والوں کے ساتھ نیکی اور سلوک کرنا۔ ساری اُمت کا اس پر اتفاق ہے کہ صلہ رحم واجب ہے اور قطع رحم حرام ہے، جن رشتہ والوں کے ساتھ صلہ واجب ہے وہ کون ہیں۔ بعض علما نے فرمایا: وہ ذو رحم محرم ہیں اور بعض نے فرمایا: اس سے مراد ذو رحم ہیں، محرم ہوں یا نہ ہوں۔ اور ظاہر یہی قول دوم ہے احادیث میں مطلقاً رشتہ والوں کے ساتھ صلہ کرنے کا حکم آتا ہے۔۔۔ صلہ رحم کی مختلف صورتیں ہیں ان کو ہدیہ و تحفہ دینا اور اگر ان کو کسی بات میں تمھاری اِعانت درکار ہو تو اس کا م میں ان کی مدد کرنا، انھیں سلام کرنا، ان کی ملاقات کو جانا، ان کے پاس اٹھنا بیٹھنا ان سے بات چیت کرنا ان کے ساتھ لطف و مہربانی سے پیش آنا۔" (بہار شریعت، ج 03، حصہ 16، ص 558 ،559، مکتبۃ المدینہ)
فتاوی رضویہ میں ہے "قسم کا کفارہ لازم ہوگاکہ دس مسکینوں کو دونوں وقت پیٹ بھر کر کھاناکھلائے، یا دس مسکینوں کو جوڑے دے، یا دس مسکینوں کوفی مسکین ایک صاع جو یا نصف صاع گیہوں یا اس کی قیمت دے۔ صاع سو روپیہ کے سیر سے ایک روپیہ پھراوپر ساڑھے تین سیر ہے؛ اور جس سے یہ نہ ہوسکے وہ تین روزے رکھے۔" (فتاوی رضویہ، جلد 13، صفحہ 507، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا اعظم عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-3872
تاریخ اجراء: 30 ذو القعدۃ الحرام 1446 ھ / 28 مئی 2025 ء