بہن سے بات نہ کرنے کی قسم توڑنے کا حکم

اپنی بہن سے بات نہ کرنے کی قسم کھائی، اب بات کرنا چاہتا ہے، تو کیا حکم ہے

مجیب: مولانا محمد ماجد رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر: Web-2084

تاریخ اجراء: 15 جمادی الاخریٰ 1446 ھ/18 دسمبر 2024 ء

دار الافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

ایک شخص نے اپنی بہن سے با ت نہ کرنے کی قسم کھائی، اب بات کرنا چاہتے ہیں، کیا کیا جائے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

ایسے شخص پر قسم توڑنا لازم ہے اور ایسی قسم سے توبہ و استغفار بھی کرے اور توڑنے کے بعد اس قسم کا کفارہ بھی ادا کرے۔ بہارِ شریعت میں ہے صِلہ ٔ رحم کے معنی: رشتے کو جوڑنا ہے، یعنی رشتے والوں کے ساتھ نیکی اور سُلُوک(بھلائی)کرنا۔(بہارِ شریعت، جلد 3، صفحہ 558،  مکتبۃ المدینہ، کراچی)

مُفَسِّرِشَہِیر، حکیمُ الاُمَّت مُفْتی احمدیارخان رحمۃ اللہ علیہ ایک حدیثِ پاک کے تَحْت فرماتے ہیں: ”یعنی جو شخص اپنے گھر والوں میں سے کسی کا حق مارنے پر قسم کھالے مَثَلًا یہ کہ میں اپنی ماں کی خدمت نہ کروں گا یا ماں باپ سے بات چیت نہ کروں گا، ایسی قسموں کا پُورا کرنا گناہ ہے۔ اِس پر واجِب ہے کہ ایسی قسمیں توڑے اور گھر والوں کے حُقُوق اَداکرے، خیال رہے! یہا ں یہ مطلب نہیں کہ یہ قَسم پُوری نہ کرنا بھی گُناہ، مگر پُوری کرنا زیادہ گُناہ ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ایسی قَسم پُوری کرنا بَہُت بڑا گناہ ہے،پُوری نہ کرنا ثواب،کہ اگرچہ رَبّ عَزَّ وَجَلَّ کے نام کی بے اَدَبی قَسم توڑنے میں ہوتی ہے۔اِسی لیے اُس پر کفَّارہ واجِب ہوتا ہے، مگر یہا ں قَسم نہ توڑنا زِیادہ گُناہ کاباعث ہے۔“ (مرآۃ المناجیح، جلد 5، صفحہ 198)

قسم توڑنے والے پر قسم کے کفارے کی نیت سے دس مسکینوں کو کپڑے پہنانا یا انہیں دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلانا لازم ہوتا ہے اور اسے اس بات کا بھی اختیار ہوتا ہے کہ چاہے تو کھانے کے بدلے میں ہر مسکین کو الگ الگ ایک ایک صدقۂ فطر کی مقدار یعنی آدھا صاع (دو کلو میں اَسی گرام کم) گندم یا ایک صاع (چار کلو میں ایک سو ساٹھ گرام کم) جَو یا کھجور یا کشمش دے دے یا ان چاروں میں سے کسی کی قیمت دے دے۔ البتہ اگر کوئی شخص اس کی طاقت  نہیں رکھتا تو مسلسل تین دن کے روزے رکھے۔

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم