Apna Maal Apne Upar Par Haram Qarar Dene Se Haram Nahi Hota

 

اپنا مال اپنے آپ پر حرام قرار دینے سے حرام نہیں ہوتا

مجیب:ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3382

تاریخ اجراء: 23جمادی الاخریٰ 1446ھ/26دسمبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    اگر کوئی ایسا شخص جس کی رقم ہو ،وہ اپنی اس رقم کے متعلق  کسی کو یہ کہہ دے کہ’’ یہ  رقم مجھ پر حرام ہے‘‘مگر دوسرا فرد بھی اس رقم کو لینے پر راضی نہ ہو تو کیا جس شخص کی  یہ  رقم ہے وہ یہ کہنے کے بعد کہ’’ یہ  رقم مجھ پر حرام ہے‘‘اپنی اس رقم کو  خود رکھ سکتا ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مال کے مالک کے یہ جملہ ’’یہ رقم مجھ پر حرام ہے ‘‘کہنے سے وہ رقم حرام نہیں ہوجاتی البتہ  یہ  قسم ہوجائے  گی،لہذا  اب اگر   کہنے والا  یہ رقم لے لے تو    اُس پر  قسم   کا کفارہ لازم ہوگا۔

   کنز الدقائق مع تبیین الحقائق میں ہے:’’(ومن حرم ملكه لم يحرم) أي من حرم على نفسه شيئا مما يملكه بأن يقول مالي علي حرام أو ثوبي أو جاريتي فلانة أو ركوب هذه الدابة لم يصر محرما عليه لذاته لأنه قلب المشروع وتغييره ولا قدرة له على ذلك بل الله تعالى هو المتصرف في ذلك بالتبديل قال - رحمه الله - (وإن استباحه كفر) أي إن أقدم على ما حرمه يلزمه كفارة اليمين لأنه ينعقد به يمينا‘‘ترجمہ:اور جو اپنی ملک کو  حرام کردے تووہ حرام نہیں ہوگی یعنی جو شخص کسی ایسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرے جس کا وہ مالک ہو،اس طرح کہ وہ کہے کہ میرا مال مجھ پر حرام ہے یا میرا کپڑا یا میری  فلاں باندی  یا اس جانور پر سوار ہونا  مجھ پر حرام ہے تو  وہ چیز  اپنی ذات کی وجہ سے اس پر حرام نہیں ہوگی کیونکہ یہ مشروع کو پلٹنا اور تبدیل کرنا ہے اور کہنے والے کو  اس پر قدرت نہیں بلکہ اس تبدیلی پر تو اللہ سبحانہ و تعالی ہی قادر ہے،اب اگر ا س نے اس چیز کو مباح کرلیا(یعنی اپنے  استعمال میں لے لیا) تو وہ کفارہ دے گا یعنی جس چیز کو اس نے حرام کیا تھا اس پر اس نے اقدام کیا تو اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوگا کیونکہ اس طرح کہہ دینے سے قسم منعقد ہوگئی۔ (تبیین الحقائق،جلد3،کتاب الایمان،صفحہ114،مطبوعہ قاھرۃ)

   الاختیار لتعلیل المختار میں ہے’’(ومن حرم على نفسه ما يملكه فإن استباحه أو شيئا منه لزمته الكفارة) وذلك مثل قوله: مالي علي حرام، أو ثوبي، أو جاريتي فلانة، أو ركوب هذه الدابة ونحوه، قال - عليه الصلاة والسلام -: «تحريم الحلال يمين، وكفارته كفارة يمين» ، ولأنه أخبر عن حرمته عليه فقد منع نفسه عنه، وأمكن جعله حراما لغيره بإثبات موجب اليمين، لأن اليمين أيضا يمنعه عنه فيجعل كذلك تحرزا عن إلغاء كلامه‘‘ترجمہ:اور جس نے  اپنے آپ پر اس چیز کو حرام کیا جس کا وہ مالک ہے،تو اب اگر اس  چیز کو پورا یا اس میں سے کچھ کو  اپنے لئے مباح کرلیا تو اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوگا،اور یہ اس   قول کی طرح  ہے کہ میرا مال یا میرا کپڑا،یا میری  فلاں باندی  یا اس جانور کی سواری وغیرہا   مجھ پر حرام  ہے۔(اس کے قسم ہونے پر دلیل تو وہ یہ ہے کہ )حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حلال  چیز کو حرام کرنا قسم ہے اور اس کا کفارہ،قسم کا کفارہ ہے،اور اس لئے کہ اس نے جب اس چیز کے اپنے اوپر حرام  ہونے کی خبر دی تو اس نے اپنے آپ کو اس کے استعمال سے روک دیا،اور یوں  قسم کےتقاضے کو ثابت کرکے اُسے حرام لغیرہ بنانا ممکن ہوگیا،کیونکہ قسم  بھی  کسی   چیز سے روک  دیتی ہے تواس کے کلام کو لغو ہونے سے بچانے کیلئے    اِسے(یعنی حلال چیز   کو اپنے اوپر حرام  کرنے کو)بھی قسم بنادیا  جائے گا ۔ (الاختیار لتعلیل المختار،جلد4،صفحہ53،مطبوعہ قاھرۃ)

   بہار شریعت میں ہے"جو شخص کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرے مثلاً کہے کہ فلاں چیز مجھ پر حرام ہے تو اس کہہ دینے سے وہ شے حرام نہیں ہوگی کہ اﷲ (عزوجل) نے جس چیز کو حلال کیا اوسے کون حرام کرسکے مگر اوس کے برتنے سے کفارہ لازم آئیگا یعنی یہ بھی قسم ہے۔"  (بہار شریعت،جلد1،حصہ9،صفحہ302،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم