بیٹی کی صحت پر بکری ذبح کرنے کی منت پوری کرنا ضروری ہے؟

بیٹی تندرست ہونے پر بکری ذبح کرنے کی منت مانی تو پورا کرنا لازم ہے ؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کسی نے ان الفاظ کے ساتھ منت مانی کہ ”اگر میری بیٹی تندرست ہوجائے تو میں بکری ذبح کروں گا“ تو بیٹی کے تندرست ہونے پر کیا اس منت کو پورا کرنالازم ہے؟ جبکہ دارالافتاء اہلسنت کے جاری شدہ فتوی (FSD-8248) میں اس صورت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس طرح منت لازم نہیں ہوتی۔

جاری شدہ فتوی کا سوال و جواب درج ذیل ہے:

سوال: اگرکسی عورت نے ان الفاظ سے منت مانی، کہ اگرمیری بیٹی کی طبیعت صحیح ہوجائے،توجومیری پراپرٹی ہے، اس کوبیچ کرسو(100)اونٹ ذبح کروں گی،پھراس کی بیٹی کی طبیعت صحیح ہو گئی، اب کیاحکم ہوگا؟

جواب: عورت کے فقط اِتنا کہنے ”اگرمیری بیٹی کی طبیعت صحیح ہوجائے،توجومیری پراپرٹی ہے،اس کوبیچ کر سو (100) اونٹ ذبح کروں گی“ سے یہ مَنَّت لازم نہ ہو گی، کیونکہ یہ کلام شرعی اعتبار سے انعقادِ مَنَّت کے لیے مطلوب ”تاکید“ اور ”پختگی“ پر مشتمل نہیں، بلکہ فقط اِظہارِ نیت اور وعدہ ہے کہ بیٹی تندرست ہوئی تو سو اونٹ ذبح کروں گی۔ البتہ اگر عورت اِسی جملہ کو یوں کہتی کہ اگر میری بیٹی کو صحت ملی تو اللہ تعالیٰ کے لیے مجھ پر سو اونٹ ذبح کرنا لازم ہے، تو یقیناً اِس مَنَّت کو پورا کرنا لازم ہو جاتا۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

سوال کا جواب درج ذیل سرخیوں کے تحت ذکر کیا جائے گا:

            نفس جواب اور اس کی تفصیل

            ایک اشکال اور اس کی شرعی بنیاد

            اس مسئلہ میں فقہاء کی آراء اوراشکا ل کا جواب

            فقہاء کی آراء میں تطبیق

            امام اہل سُنَّت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا رجحان اور وجہ ترجیح

نفس جواب اور اس کی تفصیل:

مفتیٰ بہ قول کے مطابق یہ منت درست ہے،بیٹی کے صحت یاب ہونے پر اس منت کو پورا کرنا لازم ہے۔

تفصیل: اپنے اوپر کسی ایسی چیز کو واجب کردینا جو بندے پر واجب نہیں، یہ منت کہلاتا ہے ،اب یہ اپنے اوپر کسی چیز کاواجب کرنا بنیادی طور پر 3طریقوں میں سے کسی ایک طریقے سے ہوسکتا ہے:

(1) پہلا طریقہ یہ ہے کہ اس میں نذر کے الفاظ بولے جائیں یعنی جو چیز آدمی پر واجب نہیں ہے اسے نذر کے الفاظ کے ساتھ اپنے اوپر واجب کیا جائے مثلاً کہے کہ میں نفل پڑھنے کی نذر مانتا ہوں۔

(2) دوسرا طریقہ یہ ہےکہ اس میں نذر کا صیغہ بولا جائے یعنی وہ چیز ایسے لفظوں سے اپنے اوپر لازم کر لے جن لفظوں میں اپنے اوپر لازم کرنے کے معنیٰ پائے جاتے ہوں مثلاً یوں کہے کہ مجھ پر ا (عزوجل) کے لیےاتنے روزے رکھنے لازم ہیں۔

(3) تیسراطریقہ یہ ہے کہ جو چیز آدمی پر واجب نہیں ہے اسے کسی شرط کے ساتھ معلق کرتے ہوئے اپنے اوپر واجب کرلے مثلاً یہ کہے کہ میرا فلاں کام ہو جائے تو میں روزہ رکھوں گا،اس میں نذر اور لزوم کے الفاظ ذکر نہ کئے جائیں۔

سوال میں بیان کردہ الفاظ میں منت کے لیے تیسرا طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ اس میں بکرا ذبح کرنا اس پر واجب نہیں تھا، لیکن بیٹی کے تندرست ہونے کی شرط پر اسے موقوف ومشروط کردیا کہ اگر بیٹی تندرست ہوگئی تو میں بکرا ذبح کروں گا تو اس میں منت کے تیسرےطریقے کو اپنانے کی وجہ سے یہ منت درست ہوئی اور چونکہ بکرا ذبح کرنا واجب بھی ہوتا ہے تو یوں منت شرعی کہلائی،لہذا کام ہونے پر اس منت کو پورا کرنا لازم ہوا۔

منت کسے کہتے ہیں؟ اس حوالے سے عنایہ،بنایہ،مراقی الفلاح اور فتح القدیر میں ہے،

و الفظ للآخر:  النذر، و هو  إيجاب المباح 

یعنی اپنے اوپر کسی ایسی چیز کو واجب کردینا جو بندے پر واجب نہیں یہ منت کہلاتا ہے۔ (فتح القدیر، ج 2، ص 384، مطبوعہ دار الفکر، لبنان)

نذرِ شرعی کو پورا کرنے کے متعلق اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

(وَ لْیُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ)

ترجمۂ کنزا لعرفان: اور اپنی منتیں پوری کریں۔(القرآن الکریم، پ 17، سورۃ الحج، آیۃ 29)

نذر پورا کرنے کے متعلق ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

(یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَ یَخَافُوْنَ یَوْمًا كَانَ شَرُّهٗ مُسْتَطِیْرًا)

ترجمہ ٔ کنزُ العِرفان: وہ اپنی منتیں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی برائی پھیلی ہوئی ہوگی۔ (القرآن الکریم، پ 29، سورۃ الدھر، آیۃ 7)

اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے: ”یاد رہے، منت کی ایک صورت یہ ہے کہ جو چیز آدمی پر واجب نہیں ہے اسے کسی شرط کے ساتھ اپنے اوپر واجب کرلے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اگر ایسے کام کی شرط لگائی جس کے ہو جانے کی خواہش ہے مثلاً یوں کہا کہ اگر میرا مریض اچھا ہو گیایا میرا مسافر خَیْرِیَّت سے واپس آگیا تو میں راہِ خدا میں اس قدر صدقہ دوں گا یا اتنی رکعت نماز پڑھوں گا یا اتنے روزے رکھوں گا، تو اس صورت میں جب وہ کام ہو گیا تو اتنی مقدار صدقہ کرنا اور اتنی رکعت نماز پڑھنا اور اتنے روزے رکھنا ضروری ہے،۔۔۔۔۔ منت کی دوسری صورت یہ ہے کہ کسی شرط کا ذکر کئے بغیر اپنے اوپر وہ چیز واجب کر لے جو واجب نہیں ہے مثلاً یوں کہے کہ میں نے اتنے روزوں کی منت مانی یا اس طرح کہے کہ میں اللّٰہ تعالیٰ کے لئے اتنے روزے رکھوں گا اس کا حکم یہ ہے کہ جس چیز کی منت مانی وہ کرنا ضرور ی ہے اس کے بدلے کفارہ نہیں دے سکتا۔“ (تفسیر صراط الجنان، جلد 10، صفحہ 474، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

منت کن طریقوں سے متحقق ہوتی ہے، اس حوالے سے بہارشریعت میں ہے: ”منّت کی دو ۲ صورتیں ہیں: ایک یہ کہ اوس کے کرنے کو کسی چیز کے ہونے پر موقوف رکھے، مثلاً میرا فلاں کام ہو جائے تو میں روزہ رکھوں گا یا خیرات کروں گا، دوم یہ کہ ایسا نہ ہو مثلاًمجھ پر اللہ (عزوجل) کے لیےاتنے روزے رکھنے ہیں یا میں نے اتنے روزوں کی منّت مانی۔“ (بہار شریعت، حصہ 9، صفحہ 314، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

تعلیق بالشرط کے ذریعے منت کے درست ہونے کے بارے میں مبسوط سرخسی میں ہے:

و لو قال: إن فعلت كذا فأنا أهدي كذا و سمى شيئا من ماله فعليه أن يهديه؛ لأنه التزم أن يهدي ما هو مملوك له،  و الهدي  قربة والتزام القربة في محل مملوك له صحيح 

ترجمہ: اور اگر کسی نے کہا کہ اگر میں نے ایسا کیا تو میں اتنا صدقہ کروں گا اور اپنے مال سے اس چیز کو بیان بھی کردیا تو اس پر اسی چیز کو صدقہ کرنا لازم ہوگا ،کیونکہ اس میں وہ اس چیز کو لازم کر رہا ہے جس کا وہ مالک ہے اور صدقہ کرنا نیکی ہے نیکی کوایسی جگہ میں لازم کرنا جس کا وہ مالک ہو یہ صحیح ہے۔ (المبسوط سرخسی، جلد 4، صفحہ 134، دار المعرفہ، بیروت)

یونہی بہارِ شریعت میں ہے :”اگر ایسی چیز پر معلق کیا کہ اس کے ہونے کی خواہش ہے مثلاً اگر میرا لڑکا تندرست ہوجائے یا پردیس سے آجائے یا میں روزگار سے لگ جاؤں تو اتنے روزے رکھوں گا یا اتنی خیرات کروں گا، ایسی صورت میں جب شرط پائی گئی یعنی بیمار اچھا ہوگیا یا لڑکا پردیس سے آگیا یا روزگار لگ گیا، تو اتنے روزے رکھنا یا خیرات کرنا ضرور ہے۔(بہار شریعت، جلد 2، حصہ 9، صفحہ 314، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

ایک اشکال اور اس کی شرعی بنیاد:

فقہائے کرام نے اسی مثال(اگر میری بیٹی تندرست ہوگئی تو میں بکری ذبح کروں گا) کے بارے میں متعدد کتب فقہ میں لکھا ہے کہ یہ منت ہی نہیں ہے اور اس حوالے سے درر الحکام کی یہ عبارت پیش کی جاتی ہے:

إن برئت من مرضي هذا  ذبحت  شاة لم يلزمه إلا أن يقول فلله علي أن أذبحها)، لأن اللزوم لا يكون إلا بالنذر، و الدال عليه الثاني لا الأول

علامہ ابن عابدین شامی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے بھی انہیں کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔اس کلام سے منت کے متحقق نہ ہونے کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ کلام شرعی اعتبار سے انعقادِ مَنَّت کے لیے مطلوب ”تاکید“ اور ”پختگی“ پر مشتمل نہیں، بلکہ فقط اِظہارِ نیت اور وعدہ ہے بیٹی تندرست ہوگئی تو میں بکری ذبح کروں گا، ہاں البتہ اگر لزوم کے الفاظ یعنی ”علی“ کے الفاظ ذکر دئیے جائیں تو منت لازم ہوجائے گی جیسا کہ پہلے سے جاری شدہ فتوی میں علامہ طَحْطاوی اور علامہ ابنِ عابدین شامی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہما کے حوالے سے درج ذیل جزئیات میں اسے ذکر کیا گیا ہے۔

علامہ اَحمد طَحْطاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:

ما صدر منه بهذه الصيغة ليس نذرًا حتى لو تلفظ بصيغة النذر في الذبح لزمه وإن كان من جنسه واجب لا فرض، ويدل عليه ما في «الهندية عن فتاوى قاضي خان» رجل قال:إن برئت من مرضي هذا ذبحت شاة، فبرئ لا يلزمه شيء إلا أن يقول: إن برئت فللہ علي أن أذبح شاة، انتهى۔ مفہوم اوپر گزر چکا ہے۔(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار، جلد 5، صفحہ 449، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ منت منعقد نہ ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

أن عدم الصحة  لكون  الصيغة  المذكورة لا تدل على النذر أي لأن قوله ذبحت شاة وعد لا نذر، ويؤيده ما في البزازية لو قال إن سلم ولدي أصوم ما عشت فهذا وعد۔ مفہوم اوپر گزر چکا ہے۔ (ردالمحتار مع درمختار، جلد 05، صفحہ 544، مطبوعہ کوئٹہ)

اس مسئلہ میں فقہاء کی آراء اوراشکا ل کا جواب

اس اعتراض کے جواب میں تفصیل یہ ہے کہ خاص اِس صورت میں منت لازم ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فقہاء کرام کے 4 طرح کے اقوال سامنے آتے ہیں:

(1) پہلے قول کے مطابق ان لفظوں سے منت نہیں ہوسکتی ،بلکہ یہ ایک وعدہ ہے جس کو پورا کرنا لازم نہیں۔

ان حضرات کے نزدیک ان لفظوں سے منت نہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ منت میں تاکید کا ہونا ضروری ہے اور یہ تاکید اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ جب تاکید کے الفاظ بولے جائیں اور اس کے لئے دو طریقے ہیں ایک یہ کہ نذر کے لفظ بولے جائیں اور دوسرا یہ کہ نذر کا صیغہ استعمال کیا جائے یعنی جس میں اپنے اوپر لازم کرنے کے معنی ہوں اور یہ جملے (اگر میری بیٹی تندرست ہوجائے، تو میں 100اونٹ ذبح کروں گی) لزوم کے لئے متعین وخاص نہیں، بلکہ محتمل ہیں کہ اس میں لازم ہونے یا نہ ہونے، دونوں طرح کے معنیٰ پائے جارہے ہیں، لہذا ظا ہر کے اعتبار سے یہ وعدہ ہی ہے کہ مستقبل میں ایک کام کے کرنے کے ارادے کا اظہار ہے اوراس میں وعدہ لازم نہیں ہوتا اور تعلیق کی طرف دیکھا جائے تو لزوم کے معنی پائے جاسکتے ہیں، چونکہ یہ الفاظ لزوم کے معنی میں متعین و خاص نہیں بلکہ محتمل و مشکوک ہیں تو مطلقاً ان الفاظ سے منت بھی درست نہیں ہوسکتی کیونکہ قاعدہ یہ ہے کہ محتمل و مشکوک سے وجوب ثابت نہیں ہوسکتا۔

خلاصہ یہ ہے کہ ان حضرات کے نزدیک تعلیق بالشرط والا کلام شرعی اعتبار سے انعقادِ مَنَّت کے لیے مطلوب ”تاکید“ اور ”پختگی“ پر مشتمل نہیں، بلکہ فقط اِظہارِ نیت اور وعدہ ہے،جس وجہ سے اس سے منت درست نہیں ہوسکتی۔

(2) دوسرے قول کے مطابق اس کلام سے اگر وعدہ کی نیت کرے گا ،تو وعدہ ہے اور اگر منت کی نیت کرے گا، تو منت ہے کہ کلام اس کا بھی احتمال رکھتا ہے اور اگر کوئی بھی نیت نہ ہو، تو اس کلام کو وعدہ پر ہی محمول کریں گے کہ قیاس کے مطابق اس کلام کو ظاہر پر محمول کریں گے اور کلام کا ظاہر وعدہ ہے، وجوب نہیں اور شک کے ساتھ وجوب ثابت نہیں ہوسکتا۔

(3) تیسرے قول کے مطابق اگر وعدہ کی نیت ہو، تو وعدہ،منت کی نیت ہو، تو منت اور اگر کوئی بھی نیت نہ ہو، تو اس سے منت لازم ہوجائے گی کیونکہ عام طور پر وعدوں کو شرطوں کے ساتھ ذکر نہیں کیا جاتا ،بلکہ واجبات کو شرطوں کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے۔

(4) چوتھے قول کے مطابق اس کلام سے بہر صورت منت لازم ہوجائے گی۔

راجح قول:

چوتھا قول کہنے والوں کے نزدیک قیاس تو یہی ہے کہ تعلیق بالشرط والے جملوں میں نذر کے الفاظ یا نذر کے صیغوں کو ذکر کئے بغیر منت متحقق نہیں ہوسکتی،لیکن یہ حضرات اس معاملہ میں قیاس کو ترک کرتے ہوئے استحسان پر عمل کرتے ہیں، اس میں استحسان یہ ہے کہ تعلیق بالشرط والے جملے اب عرفاً تاکید کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ،عرف نے انہیں تاکید کے معنیٰ میں متعین کردیا ہے،عرف یہ ہے کہ اگر کوئی کام کسی شرط پر معلق کردیا جائے تو اس سے مراد عام طور پر اس کی لازمی تکمیل ہوتی ہے ،محض ارادہ و نیت میں کلام کو شرط و مشروط کی طرز پر ذکر نہیں کرتے،بلکہ شرط و مشروط کا انداز وہاں اپنایا جاتا ہے ،جہاں شرط کے پائے جانے پر مشروط کا پایاجانا ضروری خیال کیا جاتا ہو۔فقہاء کرام کے کلام میں تعلیق بالشرط والے جملوں سے تاکید کے معنیٰ پائے جانے کی مثال: وعدہ اور کفالت ہے۔

فقہاء کرام کے نزدیک وعدہ کے بارے میں عام قاعدہ یہ ہے کہ وعدہ لازم نہیں ہوتا ،لیکن اگر وعدہ کو بطور تعلیق ذکر کیا جائے تو لازم ہو جاتا ہے اور کفالت کے باب میں یہ فرمایا ہے کہ کفالت اس وقت لازم ہوتی ہے کہ جب اپنے اوپر لازم کرنے کے معنیٰ پائے جائیں،لیکن اگر کسی نے لازم کرنے کے الفاظ استعمال نہ کئے بلکہ بطور تعلیق اس کلام کو ذکر کیا تو بھی کفالت لازم ہوجائے گی۔

لہذا جب تعلیق بالشرط والے جملےتاکید کے لئے متعین ہوچکے ہیں، تو اس سے وجوب بھی ثابت ہوجائے گا،اس صورت میں محتمل و مشکوک سے وجوب ثابت کرنا نہیں ،بلکہ مؤکد کلام سے وجوب ثابت کرنا کہلائےگا اور یہ درست ہے۔

نوٹ:مذکورہ جواب اس چوتھے قول کو اختیار کرتے ہوئے دیا گیا ہے۔

علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ تعالی ٰ علیہ کی جس عبار ت کا سابقہ فتویٰ میں حوالہ دیا گیا ہے،اس سے متصلاً چند کلمات کو دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے جہاں قیاس کا حکم بیان کیا وہیں حکم استحسان کو بھی بیان کیا ہےجسے امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ الرحمن اور دیگر فقہاء کرام نے اختیار کیا ہے۔

علامہ ابن عابدین شامی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی مکمل عبارت درج ذیل ہے:

ان برئت من مرضي هذا ذبحت شاة فبرئ لا يلزمه شيء إلا أن يقول فلله علي أن أذبح شاة اهـ: وهي عبارة متن الدرر وعللها في شرحه بقوله لأن اللزوم لا يكون إلا بالنذر والدال عليه الثاني لا الأول،فأفاد أن عدم الصحة لكون الصيغة المذكورة لا تدل على النذر أي لأن قوله ذبحت شاة وعد لا نذر، ويؤيده ما في البزازية لو قال إن سلم ولدي أصوم ما عشت فهذا وعد لكن في البزازية أيضا إن عوفيت صمت كذا لم يجب ما لم يقل لله علي و في  الاستحسان  يجب ولو قال: إن فعلت كذا فأنا أحج ففعل يجب عليه الحج. اهـ. فعلم أن تعليل الدرر مبني على القياس والاستحسان خلافه(رد المحتار مع در مختار، جلد 05، صفحہ 544، مطبوعہ کوئٹہ)

فقہاء کرام کی آراء پر جزئیات:

تعلیق بالشرط کی صورت کے منت ہونے یا نہ ہونے کے متعلق مبسوط سرخسی میں ہے:

و إذا قال: أنا أحرم إن فعلت كذا، أو أنا محرم أو أهدي أو أمشي إلى البيت، وهو يريد أن يعد من نفسه عدة ولا يوجب شيئا، فليس عليه شيء؛ لأن ظاهر كلامه وعد فإنه يخبر عن فعل يفعله في المستقبل، والوعد فيه غير ملزم……، وإن أراد الإيجاب لزمه ما قال؛ …… وإن لم يكن له نية ففي القياس لا يلزمه شيء؛ لأن ظاهر لفظه عدة ، ولأن الوجوب بالشك لا يثبت، وفي الاستحسان يلزمه ما قال؛ لأن العرف بين الناس أنهم يريدون بهذا اللفظ الإيجاب، و مطلق الكلام محمول على المتعارف، والتعليق بالشرط دليل الإيجاب أيضا

مفہوم اوپر گزر چکا ہے۔ (المبسوط سرخسی، جلد 8، صفحہ 138،  دار المعرفہ بیروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

فإن علقه بالشرط بأن قال إن فعلت كذا فأنا أحرم فهو على الوجوه التي بينا أنه إن نوى الإيجاب يكون إيجابا، و إن نوى الوعد يكون وعدا لما قلنا، وإن لم يكن له نية فهو على الإيجاب بخلاف الفصل الأول؛ لأن العدات لا تتعلق بالشروط، وإن الواجبات تتعلق بها

مفہوم اوپر گزر چکا ہے۔ (بدائع الصنائع، جلد 5، صفحہ 84، دار الكتب العلمية)

یونہی بحرالرائق،فتاوی عالمگیری اور غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر میں ہے:

و اللفظ للآخر  و لو قال: إن عوفيت صمت كذا لم يجب عليه حتى يقول: لله علي، وهذا قياس، وفي  الاستحسان  يجب فإن لم يكن تعليقا فلا يجب عليه قياسا واستحسانا نظيره ما إذا قال: أنا أحج لا شيء عليه ولو قال إن فعلت كذا فأنا أحج ففعل ذلك يلزمه ذلك .أقول على ما هو الاستحسان يكون الواجب بإيجاب العبد شيئين نذر ووعد مقترن بتعليق 

 مفہوم اوپر گزر چکا ہے۔(غمز عيون البصائر في شرح الأشباه و النظائر، جلد 3، صفحہ 237، دار الكتب العلمية)

تعلیق بالشرط کے ساتھ وعدہ اور کفالت کے لازم ہونے کے بارے میں فتاویٰ بزازیہ میں ہے:

اذا قال معلقا بان قال ان لم یؤد فلان فانا ادفعہ الیک ونحوہ یکون کفالۃ لماعلم المواعید باکتساء صورۃ التعلیق تکون لازمۃ ونقلہ فی الحامدیۃ واقرہ فی العقود الدریۃ 

ترجمہ: اگر کسی نے بطور تعلیق کہا کہ اگر فلاں نے قرض کی ادائیگی نہ کی تو میں تجھے ادا کروں گا یا اس جیسی کوئی اور صورت کی تویہ کفالت درست ہےکیونکہ تجھے معلوم ہوچکا ہے کہ وعدے جب تعلیق کی صورت اختیارکریں توان کو پورا کرنا لازم ہوتا ہے، اس کوحامدیہ میں نقل کیا اور عقود دریہ میں برقرار رکھا۔ (فتاوٰی بزازیہ علی ھامش فتاوی ھندیہ، کتاب الکفالۃ، جلد 6، صفحہ 3، مطبوعہ کوئٹہ)

فقہاء کی آراء میں تطبیق:

اس تمہید و وضاحت کے بعد یہ واضح ہوتا ہے کہ جن فقہاء کرام نے منت نہ ہونے کا قول کیا انہوں نے قیاس پر عمل کیا ہے اوردار الافتاء اہلسنت کے سابقہ فتویٰ میں بھی قیاس کے مطابق فتوی دیا گیا ہے اور جن فقہاء کرام نے منت درست ہونے کا قول کیا انہوں نے استحسان بالعرف پر عمل کیا ہےاور اس فتویٰ میں بھی استحسان کو اختیار کرتے ہوئے فتویٰ دیا گیا ہے، جن فقہاء کرام نے قیاس کے مطابق فتویٰ دیا ہے ،ممکن ہے کہ ان کے زمانہ میں عرفاً تعلیق بالشرط سے کلام میں پختگی مراد نہ لی جاتی ہو یا اگر لی جاتی تھی تو ان کے نزدیک اس کا عرف ہونا واضح نہ ہوا ہو، تو اس وجہ سے انہوں نے استحسان بالعر ف پر فتوی نہ دیا بلکہ قیاس پر فتویٰ دیا اور جن فقہاء کرام نے استحسان بالعرف کے مطابق فتویٰ دیا ان کے نزدیک اس کلام سے پختگی اور تاکید کا ہونا ہی معروف ہو چکا تھا، اس لئے انہوں نے استحسان بالعرف کے مطابق فتویٰ دیا۔

امام اہل سُنَّت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا رجحان اور وجہ ترجیح

اب رہا یہ معاملہ کہ موجودہ زمانہ میں فتوی کس مؤقف پر ہے؟ قیاس پر یا استحسان پر؟ تو امام اہلسنت کے فتاوٰی سےیہ ظاہر ہے کہ فتوی استحسان پر ہے، قیاس پر نہیں، امام اہلسنت نے اپنے فتاویٰ میں ایک سے زائد مقام پر استحسان کو اختیار کرتے ہوئے ایسے جملے کہ جس میں نذر اورلزوم کے صیغے نہیں ہیں، بلکہ کلام کو تعلیق بالشرط کے طور پر ذکر کیا گیا ہے، ان میں منت لازم ہونے کا حکم جاری فرمایا، یونہی اوپر بیان کردہ بہارشریعت اور تفسیر صراط الجنان کے جزئیہ سے بھی ظاہر ہے کہ فتوی استحسان پر ہے،قیاس پر نہیں۔

ذیل میں امام اہلسنت امام احمد رضاخان علیہ الرحمۃ الرحمٰن کے صرف 5 فتاوی ٰ، سوال و جواب کے ساتھ ذکر کئے جارہے ہیں، جن سے واضح ہوتا ہے کہ فتویٰ استحسان پر ہے یعنی محض تعلیق بالشرط والے کلام سے بھی منت ہوجاتی ہے۔

(1) سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سےسوال ہوا کہ ایک لڑکی کی نانی نے نیاز مانی کہ اگر میرے نواسی پیداہوگی تو میں چہل تنوں کی گائے ذبح کروں گی۔ تو اس کاجواب دیتے ہوئے امام اہلسنت نے فرمایا۔ ”چہل تن چالیس شہداء ہیں، اگر منت سے یہ مراد تھی کہ گائے مولیٰ عزّوجل کےلئے ذبح کرکے اس کا ثواب ان شہیدوں کو پہنچایا جائے تو وہ نذر واجب ہوگئی (فتاوی رضویہ، جلد 13، صفحہ 583، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

(2) سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سےسوال ہوا کہ کسی نے بکری یا مرغی موجودہ کی نسبت مخصوص کرکے کہا کہ میں اس بکری یا مرغی کی نیاز کروں گا، پھر کسی وجہ سے وہ مفقود ہوگئیں تو بجائے اس کے دوسری بکری مرغی یا گائے وغیرہ کی اسی قدر گوشت سے نیاز ہوگی یانہیں؟ تو اس کا جواب دیتے ہوئے امام اہلسنت نے فرمایا۔ ”اگر یہ نیاز نہ کسی شرط پر معلق تھی مثلاً میرا یہ کام ہوجائے تو اس جانور کی نذر کروں گا، نہ کوئی ایجاب تھا مثلاً اللہ کےلئے مجھ پر یہ نیاز کرنی لازم ہے جب تو یہ نذر شرعی ہونہیں سکتی، اور اگر لفظ ایسے تھے جن سے شرعاً وجوب ہوگیا تو جبکہ ایجاب خاص جانور معین سے متعلق تھا اس کے گمنے یا مرنے کے بعد دوسرا اس کی جگہ قائم کرنا کچھ ضرور نہیں، نہ اس نذر کا اس پر مطالبہ رہا، اگر دوسرا جانور کردے گا تو تبرع ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 13، صفحہ 589، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

(3) سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سےسوال ہوا کہ زید نے منت مانی کہ اگر فلاں تکلیف میری رفع ہوجائے تو میں بکری وغیرہ ذبح کرکے مسکینوں کو تقسیم کروں گا، اگر زید کامیاب ہوااور بکرا ذبح کیا تو آیا زید بھی اس گوشت میں سے کھاسکتا ہے یانہیں؟ تو اس کا جواب دیتے ہوئے امام اہلسنت نے فرمایا۔ ”زید خود کھاسکتا ہے نہ اپنے ماں باپ وغیرہما اصول خواہ بیٹا بیٹی وغیرہما فروع کسی ہاشمی یا غنی کو کھلاسکتا ہے بلکہ وہ خاص مساکین مصرف زکوٰۃ کاحق ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد13، صفحہ 597، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

(4) سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سےسوال ہوا کہ اگر بدرگاہ خداوند کریم سوال کیا جائے کہ مجھ کو فرزند عطاہو یا بیماری دفع ہو یا قرض ادا ہو تو اس قدر خیرات فی سبیل اللہ بارواحِ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یا حضرت پیر دستگیر یا ولی ا کردوں گا یہ نذر جائز ہے یانہیں؟ تو اس کا جواب دیتے ہوئے امام اہلسنت نے فرمایا۔ ”بلاشبہہ جائز ہےاور اس کا کرنا واجب۔(فتاوی رضویہ،جلد13، صفحہ 583، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

(5) سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سےسوال ہوا کہ زید نے عہد کیا تھا کہ میں ملازم ہوجاؤں تو ایک ماہ کی تنخواہ راہِ خدا میں صَرف کروں گا، اب وہ ملازم ہوگیا، اگر زید اپنی اس ماہ کی تنخواہ کو اپنے کسی نہایت غریب بیکس و مفلس رشتہ دار کو اس نیت سے دے تو اس کے ذمہ سے وہ عہد ساقط ہوجائے گا یا نہیں، درصورت عدم ساقط ہونے کے وہ اور کس کام میں خرچ کرے؟ تو اس کا جواب دیتے ہوئے امام اہلسنت نے فرمایا۔”ضرور نذرادا ہوجائے گی،جب کہ وہ عزیز نہ اس کی اولاد میں ہو،نہ یہ اس کی، نہ زوج و زوجہ، نہ سید، وغیرہ جنہیں زکوٰۃ دینا جائز نہیں، بلکہ عزیز کو دینے میں دُوناثواب ہے، صدقہ اور صلہ رحم، کماثبت عن النبی صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم(جیسا کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ سے ثابت ہے)۔ (فتاوی رضویہ، جلد 13، صفحہ 593، 594، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

اور اصول افتاء کا تقاضا بھی یہی ہے کہ استحسان پر فتویٰ دیا جائے کیونکہ یہ استحسان بالعرف ہے اور عرف بھی خاص نہیں، بلکہ عام ہے اور قاعدہ یہ ہے کہ عرف عام اور تعامل کی وجہ سے قیاس کو ترک کردیا جاتا ہے۔

استحسان كو قياس پر فوقیت حاصل ہے، جیسا کہ اما م اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ الرحمن ایک سوال کے جواب میں استحسان کو قیاس پر ترجیح دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ”یہ استحسان ہے جیسا کہ فتاوٰی شامی میں نہراور فتح کے واسطہ سے منتقیٰ سے منقول ہے اور جوخلاصہ میں پھر بحر اور پھر درمختار میں ہے وہ قیاس ہے جبکہ استحسان کو تقدم حاصل ہے۔ و اللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی رضویہ، جلد 13، صفحہ 579، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

قیاس کو استحسان کے مقابلہ میں تر ک کردیا جائے گا، جیسا کہ محیط برہانی اور فتح القدیر میں ہے:

النص أو الإجماع أو القياس الخفي الذي هو الاستحسان، وبكل واحد منها  يترك  القياس الجلي 

مفہوم گزر چکا۔ (فتح القدير، جلد 8، صفحه 395، مطبوعه بيروت)

عرف کی وجہ سے قیاس کو ترک کردیا جائے گا جیسا کہ مبسوط سرخسی میں ہے:

يترك  القياس للعرف 

ترجمہ: عرف کی وجہ سے قیاس کو ترک کردیا جائے گا۔ (المبسوط للسرخسي، جلد 5، صفحہ215، دار المعرفہ بیروت)

استحسان بالتعامل کے مقابلہ میں قیاس کو ترک کردیا جائے گا، جیسا کہ فتح باب العناية میں ہے:

و وجه الاستحسان أَنْ الناس تعاملوا بها من غير نكير، و القياسُ يُترك بالتعامل 

مفہوم گزر چکا۔ (فتح باب العناية بشرح النُّقاية، جلد 2، صفحه 528، دار الأرقم، بيروت)

کس تعامل کی وجہ سے استحسان کو ترک کیا جائے گا؟ اس بارے میں فتح القدیر میں ہے:

و تعامل أهل بلدة ليس هو  التعامل الذي  يترك  به  القياس بل ذلك تعامل أهل البلاد

مفہوم گزر چکا۔ (فتح القدير، جلد 6، صفحه 429، مطبوعه بيروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Sar-9051

تاریخ اجراء: 16 صفر المظفر 1446ھ / 22 اگست 2024ء