بیٹی کو حج کروانے کی منت مان کر کسی اور کو حج پر بھیجنا

بیٹی کو حج کروانے کی منت مانی تو اس کے علاوہ کو بھیج سکتے ہیں؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-9287

تاریخ اجراء: 07 رمضان المبارک   1446 ھ/ 08 مارچ 2025 ء

دار الافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے  میں کہ ایک شخص نے منت مانی کہ میرا فلا ں کام ہوگیا، تو میں اپنی شادی شدہ بیٹی  ہندہ کو حج  کرواؤں گا۔ اب اس  کا وہ کام ہوگیا ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس صرف بیٹی کو بھیجنے کے اخراجات ہیں، جبکہ   بیٹی محرم کے بغیر جا نہیں سکتی اور محرم کے اخراجات اِس کے پاس موجو د نہیں، تو  سوال یہ ہے  کہ  اس پر حج کروانا لازم ہے؟ اور جب بیٹی  کے  ساتھ محرم کے اخراجات موجود نہیں، تو بیٹی کے علاوہ کسی اور کو  حج پر بھیج سکتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں  مذکورہ شخص کی منت شرعی ِمنت ہے  اور اس شخص پر  حج کروانا بھی لازم ہے، کیونکہ منتِ شرعی کے لئے ایک شرط یہ ہے کہ اس کی جنس سے کوئی  عمل واجب ہواور کسی کو  حج کروانے کی جنس سے حجِ بدل  (یعنی خود حج پر قدرت نہ ہونے کی صورت میں کسی کو حج پر بھیجنا) واجب ہے، لہٰذا کسی  کو حج کروانے کی منت بھی منت ِشرعی ہی قرار پائے گی۔

   جہاں تک  اس بات کا تعلق ہے کہ اسی بیٹی کو ہی حج کروانا ضروری ہے یا کسی اور کو بھی بھیج سکتے ہیں، تو اس کے  متعلق حکم شرعی یہ ہے کہ  منت پوری ہوجانے کے بعد ہندہ کو ہی حج  کروانا ضروری نہیں، بلکہ اس کے علاوہ اپنے کسی بیٹے  یا دیگر کسی مرد کو بھی حج کرواکر اس منت کو پورا کیا جا سکتا  ہے، کیونکہ  منت میں  اگر کوئی جگہ، درہم و دینار یا  کوئی فرد خاص کر لیا جائے، تو شرعاً وہ متعین  نہیں ہوتا، بلکہ کسی اور فرد یا مقام پر    بھی منت پوری کی جا سکتی ہے۔

   منتِ شرعی کی ایک شرط یہ ہے  کہ اس کی جنس سے کوئی عمل  واجب ہو ،جیساکہ فتاوٰی عالمگیری میں ہے:

   ”أن النذر لا يصح إلا بشروط  أحدها  أن يكون الواجب من جنسه شرعا“

   یعنی منت  چند شرائط کے ساتھ درست ہوتی ہے، ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ جس چیز کی منت مانی ہے، اس کی جنس سے شرعاً کوئی   واجب ہو۔ (فتاوی عالمگیری، جلد 1، صفحہ 208، مطبوعہ کوئٹہ)

   کسی   کو حج کروانے کی منت مانی، تو یہ منت شرعی ہوگی  اور  دوسرے کو حج کروانا لازم ہوجائے گا، جیساکہ مہذِّب مذہبِ مہذَّب، امام محمد بن حسن شیبانی  رحمۃ اللہ علیہ  (سالِ وفات: 189 ھ/ 804 ء) لکھتے ہیں:

   ’’و إن قال إن فعلت كذا فأ نا احج بفلان فحنث فإن كان نوى فأنا أحج و هو معي فعليه أن يحج و ليس عليه أن یحج بہ و إن كان نوى ان يحجه فعليه أن يحجه كما نوى

   ترجمہ: اور اگر کسی نے کہا کہ  اگر   میرا کام اس طرح ہوگیا، تو میں فلاں  کے ساتھ  حج کروں گا، پھر اس  کا وہ کام ہوگیا تو اگر اس کی  نیت یہ تھی کہ میں حج کروں گا اور وہ  (فلاں )بھی میرے ساتھ ہوگا، تو (بذات خود)  اس پر تو حج لازم ہوگا  لیکن   (فلاں کے ساتھ) حج  کرنا  لازم نہیں ہوگا اور اگر یہ نیت تھی کہ فلاں کو حج کرواؤں گا، تو جیسی اس نے نیت کی اس کے مطابق فلاں کو حج کروانا اس پر  لازم ہوجائے گا۔ (کتاب الاصل، جلد 2، صفحہ 486، 487، مطبوعہ إدارة القرآن و العلوم الإسلامية)

   شمس الاَئمہ، امام سَرَخْسِی رَحْمَۃ ُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ (سالِ وفات: 483 ھ/ 1090 ء) لکھتے ہیں:

   ’’و إن كان قال: فعلي أن أحجج فلانا، فهذا محكم غير محتمل فإنه تصريح الالتزام بإحجاج فلان، و ذلك صحيح بالنذر“

   ترجمہ:اور اگر کسی  نے کہا کہ  مجھ پر لازم ہے کہ  میں فلاں کو حج کرواؤں گا، یہ جملہ محکم ہے، اس میں کسی قسم کا احتمال نہیں ہے، تو پس  اس جملہ میں فلاں کو حج کروانے  کے  لازم ہونے کی صراحت  ہے اور   یہ جملہ  منت ہونے کے اعتبار سے صحیح ہے۔(المبسوط، جلد4، صفحہ134، مطبوعہ دار المعرفۃ، بیروت، لبنان)

   کسی کو حج کروانے کی جنس سے حج بدل واجب ہے، جیساکہ امام کمال الدین  ابنِ ھُمَّام رَحْمَۃ ُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ (سالِ وفات: 861 ھ/ 1456 ء) کسی کو حج کروانے کی منت کے لازم ہونے اور حج بدل کے اس کی جنس سے واجب ہونے کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

   ’’ان فعلت كذا فعلي ان احج بفلان، فإن نوى احج و هو معي فعليه ان يحج و ليس عليه ان يحج به، و إن نوى ان يحجه فعليه ان يحجه لأن الباء للإلصاق فقد الصق فلانا بحجه. و هذا يحتمل معنيين ان يحج فلان معه في الطريق و ان يعطي فلانا ما يحج به من المال، و التزام الأول بالنذر غير صحيح و الثاني صحيح لأن الحج يؤدى بالمال عند اليأس من الأداء فكان هذا في حكم البدل و حكم البدل حكم الأصل فيصح التزامه بالبدل كما يصح التزامه بالأصل، فإذا نوى الوجه الأول عملت نيته لاحتمال كلامه، و لكن المنوي لا يصح التزامه بالنذر فلا يلزمه شيء و إنما عليه أن يحج بنفسه خاصة و إن نوى الثاني لزمه فإما أن يعطيه من المال ما يحج به أو يحجه مع نفسه ليحصل الوفاء بالنذر و لو كان قال فعلي أن أحج فلانا فهذا محكم و النذر به صحيح“

   ترجمہ: اگر میرا کام  اس طرح ہو گیا تو میں  فلاں کے ساتھ حج کروں  گا  ،اگر نیت یہ  تھی کہ میں حج کروں  گا اور وہ بھی میرے ساتھ ہو گا  تو (بذات خود)  اس پرتو  حج لازم ہوگا  لیکن   (فلاں کے ساتھ )حج  کرنا  لازم نہیں ہوگا اور اگر یہ نیت تھی کہ   فلاں  کو حج کرواؤں گا،  تو فلاں کو حج کروانا اس پر  لازم ہوجائے  گا کیونکہ

   (أن أحج بفلان)

   میں’’با“ الصاق کے لیے ہے، تو اس  نے فلاں کے ساتھ حج کرنے کو  ملادیا۔ اور یہ دومعنی  کا احتمال رکھتا ہے  (1) فلاں حج کے راستے میں اس کے ساتھ جائے (2)  یہ فلاں  کو اتنا  مال دے دے  جس کے ذر یعے وہ حج    کرسکے۔ پہلے معنی    کی صورت میں منت کو لازم قرار دینا صحیح نہیں، البتہ دوسرے معنی کے لحاظ سے منت کو لازم قرار دینا صحیح ہے، اس  کی وجہ  یہ  ہے کہ  خود حج ادا کرنے سے مایوسی ہوجائے، تو پھر مال کے ذریعے   حج کروایا جاتا ہے، تو پس یہ(منت )  بدل کے حکم میں ہوئی اور بدل کا حکم اصل   والا  ہوتا ہے، لہذا بدل کے طور پر ( دوسرے معنی ) کی منت لازم  قرار دینا صحیح ہے  جیساکہ اصل   کے اعتبار سے اس کو منت لازم قرار دینا صحیح ہے، پس   جب  پہلے معنی کی  نیت کی  تو  کلام کے  احتمال کی وجہ سے  اس کی نیت کا عمل ہو گا، لیکن جس چیز کی  نیت کی،   اس کو لازم  قرار دینا صحیح نہیں، لہذا اس پر کچھ بھی لازم  نہیں ہو گا، ہاں بذات  خود صرف اس پر حج کرنا لازم ہو گا اور اگر اس  نے دوسرے معنی کی نیت کی     تو وہ اس پر لازم   ہوجائے گی، اب یا تو اس کو   اتنا مال دے دے کہ جس  سے وہ حج کرلے  یا اس کو اپنے ساتھ حج پر لے جائے  تاکہ منت  پوری  ہوجائے اور اگر یہ کہا کہ مجھ پر فلاں  کو حج کروانا ہے، تو یہ محکم ہے اور ان الفاظ کے ساتھ منت  صحیح قرار پائے گی۔(فتح القدیر، جلد 3، صفحہ 162، مطبوعہ کوئٹہ)

   خاص بیٹی کو حج کرانے کی منت ماننے سے اسی بیٹی کو حج کرانا ہی  ضروری نہیں  کیونکہ منت میں درہم ،جگہ اور فقیر کی تعیین لازم نہیں ہوتی، جیساکہ خاص فقیر کی عدم تعیین کے متعلق  علامہ اَحمد طَحْطاوی  حنفی رَحْمَۃ ُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1231 ھ/ 1815 ء) لکھتے ہیں:

   ’’يجزئه الصرف لزيد الفقير بنذره  أي مع نذره الصرف  لعمرو“

   ترجمہ: زید فقیر پر منت کی رقم خرچ کرنا بھی جائز ہے، حالانکہ عمر و پر رقم خرچ کرنے کی منت مانی تھی۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، صفحہ 697، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان)

   علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃ ُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1252 ھ/ 1836 ء) لکھتے ہیں:

   ’’لو عين درهما أو فقيرا أو مكانا للتصدق۔۔۔ فالتعيين ليس بلازم“

   ترجمہ: اگر درہم  یا فقیر یا کسی جگہ  کو صدقہ کے لیے متعین  کیا تو یہ تعیین لازم نہیں ہوگی۔ (رد المحتار، جلد 5، صفحہ 538، مطبوعہ کوئٹہ)

   خاص نذر معلق کی صراحت کرتے ہوئے  لکھتے ہیں:

   ’’ان المعلق۔۔۔ لایتعین  فیہ المکان و الدرھم و الفقیر“

   یعنی نذر معلق  میں  مکان، درہم اور فقیر متعین کردینے سے متعین نہیں ہوتے۔ (رد المحتار، جلد 5، صفحہ 546، مطبوعہ کوئٹہ)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃ ُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1367 ھ/ 1947 ء) لکھتے ہیں: یہ منّت مانی کہ جمعہ کے دن اتنے روپے فلاں فقیر کو خیرات دوں گا اور جمعرات ہی کو خیرات کردیے یا اس کے سوا کسی دوسرے فقیر کو دیدیے منّت پوری ہوگئی یعنی خاص ا سی فقیر کو دینا ضرور نہیں نہ جمعہ کے دن دینا ضرور۔ یوہیں اگر مکہ معظمہ یامدینہ طیبہ کے فقرا پر خیرات کرنے کی منّت مانی تو وہیں کے فقرا کو دینا ضروری نہیں بلکہ یہاں خیرات کردینے سے بھی منّت پوری ہوجائیگی۔ (بھار شریعت، جلد 2، حصہ  9، صفحہ 316، مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم