Beti ki Qasam Kha Kar Tor Dena Kaisa?

بیٹی کی قسم کھا کر توڑ دی، تو کیا حکم ہے؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:FSD-9016

تاریخ اجراء:22 محرم الحرام 1446 ھ / 29 جولائی 2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ مجھے ایک جاننے والی عورت نے میری قریبی رشتہ دار عورت کے متعلق  کہا کہ وہ ایسی ایسی ہے( یعنی اس کی برائیاں بیان کیں) اور پھر مجھے کہا کہ اپنی بیٹی کی قسم کھاؤ  کہ تم یہ باتیں کسی کو نہیں بتاؤ گی،میں  نے اس وقت اپنی بیٹی کی قسم کھا لی،کچھ دن بعد میں اپنی  اسی رشتہ دار عورت کے پاس بیٹھی تھی جس کے متعلق مجھے غلط گائیڈ کیا گیا تھا ، تو میں نے اسے کہا کہ آپ کتنی اچھی ہیں،لیکن لوگ آپ کے متعلق کیا کیا کہتے ہیں، تو وہ  مجھے کہتی کہ یقیناً تمہیں فلاں نے کہا ہوگا،حالانکہ میں نے کسی کا نام نہیں لیا تھا، اسے خود ہی معلوم ہو گیا،میں اب کافی پریشان ہوں،میری ایک ہی بیٹی ہے  اور میں نے اس کے نام کی قسم کھا لی اور جس بات پر قسم کھائی تھی وہ بھی ظاہر ہو گئی، میں کافی پریشان ہوں، میری رہنمائی فرمائیں کہ  اس قسم کا کیا کفارہ  ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں بیٹی کی قسم کھانا،  شرعاً  قسم ہی نہیں،  نہ ہی اس کے ٹوٹنے پر کفارہ  لازم ہے، اس لیے کہ قسم صرف  اللہ پاک کی ذات و صفات  کی ہی کھائی جا سکتی ہے، اس کے علاوہ کسی اور کی   قسم کھانا، خواہ انسان کی  ہو،  کسی عبادت کی  یا کسی مقدس مقام کی، بہر صورت  ناجائز و گناہ ہے،  کیونکہ یہ غیرِ خدا ہیں اور غیرِ خدا کی قسم کھانے سے احادیثِ طیبہ میں منع کیا گیا ہے، نیز  جس   ذات یا چیز کی قسم اٹھائی جاتی ہے، قسم   اس کی تعظیم کا تقاضا کرتی ہے،حالانکہ اس اعلیٰ درجہ کی تعظیم کی حقیقی حق دار اللہ پاک کی ذات ہے، اس کے علاوہ کوئی بھی اس تعظیم کا حق دار نہیں، لہٰذا بیٹی کی قسم کھانا ، ناجائز و گناہ ہے، البتہ اس کی وجہ سے کفارہ لازم نہیں ہوگا،  ہاں!  غیرِ خدا کی قسم کھانے کی وجہ سے توبہ و استغفار  کرنا ضروری ہے۔اور جہاں تک اس  بات کا تعلق ہے کہ بیٹی کی قسم کھانے کے بعد اس کو توڑ دینے سے بیٹی کو کسی قسم کا نقصان پہنچے گا، تو شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں،بلکہ یہ بدشگونی اور لوگوں کے توہمات میں سے ہےاور اس طرح کی چیزوں کی ممانعت حدیث پاک میں موجود ہے۔

   یہ بھی  یادرہے! جس طرح  بلااجازتِ شرعی کسی مسلمان کی غیبت کرنا(کسی مسلمان کے پوشیدہ عیب کو اس کی غیرموجودگی میں برائی کے طور پر ذکر کرنا) گناہ ہے، اسی طرح بلااجازت شرعی غیبت  سننا بھی گناہ ہے، لہٰذا   اگر کوئی  شخص کسی مسلمان کی غیبت کرے ، تو اسے منع کر دیا جائے۔

   غيرِ خداكی قسم  کھانے کی ممانعت کے  متعلق نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:’’إن اللہ ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم من كان حالفا فليحلف بالله أو ليصمت‘‘ترجمہ: بے شک اللہ پاک تمہیں اپنے آباؤ اجداد  کی قسم کھانے سے منع فرماتا ہے، تو جو شخص قسم کھائے، تو چاہیے کہ وہ  اللہ کی قسم کھائے یا چُپ رہے۔(صحیح البخاری، کتاب الایمان،باب لا تحلفوا بآبائکم، جلد 2 ، صفحہ 513  ،مطبوعہ لاھور )

   علامہ بدرالدین عینی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات:855ھ/1451ء) اسی طرح کی ایک حدیثِ پاک کے تحت لکھتےہیں:يعني: من أراد أن يحلف لتأكيد فعل أو قول فلا يحلف إلا باللہ، لأن الحلف يقتضي تعظيم المحلوف به،وحقيقة العظمة مختصة بالله تعالى فلا يضاهى به غيره،...و يكره الحلف بغير أسماء اللہ تعالى وصفاته وسواء في ذلك: النبي صلى اللہ عليه وسلم والكعبة والملائكة والأمانة والروح، وغير ذلك ترجمہ: یعنی جو اپنی بات یا فعل کو  مؤکد کرنے کے لیے قسم اٹھائے، اسے چاہیے کہ  صرف اللہ پاک کی قسم اٹھائے، اس لیے کہ قسم محلوف بہ( یعنی جس کی قسم اٹھائی جا رہی ہے) کی تعظیم کا تقاضا کرتی ہے  اور(اس درجہ  کی) عظمت درحقیقت اللہ پاک کے ساتھ خاص ہے، کسی اور کو اس کے ساتھ نہیں ملایا جا سکتا۔اوراللہ پاک کے نام اور اس کی صفات کے علاوہ کسی کی قسم اٹھانا، مکروہ ہے، اس معاملے میں نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کعبہ شریف، فرشتے، امانت اور روح وغیرہ برابر ہیں( یعنی ان میں سے کسی کی بھی قسم نہیں اٹھا سکتے)۔(عمدة القاري شرح صحيح البخاري ، جلد 16 ، صفحہ 292 ، مطبوعہ بیروت )

   غیرِخدا  ذوات ہوں یا عبادات و مقامات کسی کی قسم نہیں اٹھا سکتے،  چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے:”اما اليمين بغير اللہ... وهواليمين بالآباء والابناء والانبياء والملائكة صلوات اللہ عليهم والصوم والصلاة وسائر الشرائع والكعبة والحرم وزمزم والقبر والمنبر ونحو ذلك،ولا يجوز الحلف بشيء من ذلك لما ذكرنا...ولو حلف بذلك لا يعتد به ولا حكم له اصلا‘‘ ترجمہ:بہر حال غیر اللہ کی قسم، تو وہ باپ، بیٹوں، انبیائے كرام اورفرشتوں(عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامْ)، روزوں، نماز اور دیگر تمام دینی احکام،کعبہ معظمہ،حرم شریف، زمزم، قبر،منبر اور اس کی مثل دیگر اشیاء کی قسم کھانا ہےاوران میں سے کسی بھی چیز کی قسم کھانا، جائز نہیں،اس وجہ سے جو ہم نے ذکر کر دی اور اگر کسی نے   ان میں سے کسی چیز  کے ذریعے قسم کھا  لی،تو وہ قسم کھانے والا شمار نہیں ہوگا اور اس قسم کا اصلاً کوئی حکم(کفارہ) نہیں ہوگا۔(بدائع الصنائع، کتاب الایمان، جلد 3 ، صفحہ 21 ،مطبوعہ بیروت)

   بہارِ شریعت میں ہے:غیر خدا کی قسم، قسم نہیں، مثلاً: تمہاری قسم، اپنی قسم، تمہاری جان کی قسم، اپنی جان کی قسم، تمہارے سرکی قسم، اپنے سرکی قسم، آنکھوں کی قسم، جوانی کی قسم، ماں باپ کی قسم، اولادکی قسم، مذہب کی قسم، دین کی قسم، علم کی قسم، کعبہ کی قسم، عرش الٰہی کی قسم، رسول اﷲ کی قسم۔(بھارِ شریعت، قسم کا بیان، جلد2، صفحہ 302،  مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   بد شگونی کی ممانعت کے متعلق نبی کریم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’لیس منا من تطیر‘‘ ترجمہ:جس نے بد شگونی  لی(کسی چیز سے برا فال لیا)، وہ ہم میں سے نہیں(یعنی ہمارے طریقے پر نہیں)۔(المعجم الکببیر، جلد18،صفحہ162، مطبوعہ بیروت)

   بلااجازتِ شرعی مسلمان کی غیبت سننا بھی ناجائز ہے، چنانچہ حدیثِ پاک میں ہے:عن ابن عمر، قال: نهى رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم عن الغيبة، وعن الاستماع إلى الغيبة ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے غیبت کرنے اور سننے سے منع فرمایا ہے۔(المعجم  الکبیر للطبرانی،جلد13، صفحہ331، مطبوعہ قاھرہ)

   بہارشریعت میں ہے:جس کے سامنے کسی کی غیبت کی جائے اسے لازم ہے کہ زبان سے انکار کردے،مثلاً:کہہ دے کہ میرے سامنے اس کی برائی نہ کرو۔ اگر زبان سے انکار کرنے میں اس کو خوف و اندیشہ ہے تو دل سے اسے برا جانے اور اگر ممکن ہو تو یہ شخص جس کے سامنے برائی کی جارہی ہے،وہاں سے اٹھ جائے یا اس بات کو کاٹ کر کوئی دوسری بات شروع کردے ،ایسا نہ کرنے میں سننے والا بھی گناہ گار ہوگا، غیبت کا سننے والا بھی غیبت کرنے والے کے حکم میں ہے۔(بھارشریعت،جلد 3،حصہ16،صفحہ537،538، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم