فلاں کام کروں تو زنا کروں کہنا کیسا؟

یوں کہنے کا حکم کہ: فلاں کام کروں تو زنا کروں

دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ اگر کوئی بندہ قسم اٹھائے کہ "اگر میں نے یہ کام کیا تو اپنی بیٹی سے زنا کیا۔" پھر اس کے بعد قسم توڑ دے اور توڑنے سے پہلے بول دے کہ میں یہ قسم توڑتا ہوں، اس کا میں کفارہ ادا کروں گا۔ تو اس کے اوپر کیا لاگو ہوگا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

سوال میں بیان کردہ الفاظ قسم کے الفاظ نہیں ہیں، لہذا ان سے نہ تو قسم منعقد ہو ئی اور نہ ہی وہ کام کرنے سے قسم کا کفارہ لازم ہو ا۔ البتہ! اس طرح کے غلیظ جملے کہنے سے بچنا چاہیے۔ فتح القدير میں ہے

إن قال إن فعلت كذا فهو زان أو فاسق أو سارق أو شارب خمرا أو آكل ربا لا يكون يمينا

 ترجمہ: اگر کوئی شخص کہے کہ اگر میں فلاں کام کروں تو زانی یا فاسق یا چوریا شرابی یا سود خور ہوں، تو اس سے قسم نہیں ہوگی۔ (فتح القدیر، جلد 5، صفحہ 79، مطبوعہ: بیروت)

اعلی حضرت علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ ”چار شریکوں نے باغ کی فصل خرید کی اور حصے بخرے پر جھگڑا پیدا ہوا، ایک شخص نے منجملہ ان شریکوں کے قسم کھائی اگر اس باغ میں رہوں تو اپنی ماں اور بیٹی سے زنا کروں، اور اپنے مکان کو چلا گیا، آخر کار دو آدمی اس کو جبراً اسی باغ میں لائے اور رات کو بھی رکھا اور قسم کے خلاف عمل میں آیا لیکن جبراً عمل میں آیا ہے، اور صبح کو اپنا فیصلہ کر کے مکان کو چلا گیا اور شخصوں نے اس کو اپنی برادری سے خارج کیا ہے تو اب اس پر جو قسم خوردہ ہے کیا تعزیر ہونا چاہئے؟ یا نہیں ہونا چاہئے“ تو جواباً ارشاد فرمایا: وہ ناپاک و بیہودہ قسم محض مہمل ہیے، لوگ بعد قسم اسے باغ میں لائے اور شب کو رکھا اس سے اس قسم کھانے والے پر کوئی تعزیر نہ آئی نہ وہ اس بناء پر برادری سے خارج کئے جانے کے قابل ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 13، صفحہ 504، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا اعظم عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4329

تاریخ اجراء: 21 ربیع الآخر 1447ھ / 15 اکتوبر 2025ء