دو گھروں میں نہ جانے کی قسم کھانے کے بعد ایک کے گھر جانا

دو لوگوں کے گھر نہ جانے کی قسم اٹھائی تو ایک کے گھر جانے سے قسم ٹوٹ جائے گی ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کسی شخص نے ان الفاظ سے قسم کھائی کہ ”اللہ کی قسم میں زید اور بکر کے گھر نہیں جاؤں گا“، پھر کچھ عرصے بعد وہ شخص کسی کام کی غرض سے زید کے گھر چلا گیا، تو کیا صرف زید کے گھر جانے سے اس کی قسم ٹوٹ جائے گی ؟یا جب تک بکر کے گھر نہیں جاتا، تب تک اس کی قسم برقرار ہے؟ اس حوالے سے رہنمائی فرمادیں۔

 نوٹ: اس شخص کی ان جملوں سے قسم کو ہر ایک کے گھر نہ جانے کے ساتھ جوڑنے کی نیت نہیں تھی، بلکہ اس کی نیت دونوں گھروں میں نہ جانے پر قسم اٹھانے کی تھی۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں شخصِ مذکور کے فقط زید کے گھر جانے سے اس کی قسم نہیں ٹوٹی، بلکہ جب تک وہ بکر کے گھر نہیں جاتا، اس کی قسم برقرار ہے۔

تفصیل یہ ہے: قوانینِ شرعیہ کے مطابق اگر کسی شخص نے قسم میں دو چیزوں کو جمع کیا اور ان دونوں کے درمیان  حرف ِ عطف”واو“ یعنی اور  کو ذکر کیا ہو اور اس کے بعد  حرف نفی کو نہ دوہرایا ہو، جیسے کسی نے کہا:

والله لا أكلم فلانا وفلانا (اللہ کی قسم میں فلاں اور فلاں سے کلام نہیں کرونگا)، تو ایسی صورت میں قسم کا تعلق دونوں چیزوں کے ساتھ ہوگا، اگر دونوں پائی جائیں گی، تو قسم ٹوٹے گی، ورنہ کسی ایک کے پائے جانے سے قسم نہیں ٹوٹے گی، جبکہ قسم اٹھانے والے نے اس قسم سے دونوں چیزوں میں سے ہر ایک کے ساتھ قسم کی نیت نہ کی ہو۔ پوچھی گئی صورت میں بھی شخصِ مذکور نے ان الفاظ "اللہ کی قسم میں زید اور بکر کے گھر نہیں جاؤں گا" میں دونوں کے درمیان حرف ِ عطف "اور" کو ذکر کیا ہے اور نفی کو بھی نہیں دوہرایا، نیز قسم سے اس کی نیت بھی ہر ایک کے گھر کو خاص کیے بغیر دونوں گھروں میں نہ جانے کی تھی، لہٰذا صرف زید کے گھر جانے سےاس کی قسم نہیں ٹوٹی۔

مرقومہ بالا اصول کے متعلق شمس الائمہ، امام سَرَخْسِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 48ھ/1090ء) لکھتے ہیں:

وإن قال: لا أذوقطعاما ‌ولا ‌شرابا فذاق أحدهما حنث؛ لأنه كرر حرف النفي، فتبين أن مراده نفي كل واحد منهما على الانفراد كما قال تعالى: {لا يسمعون فيها لغوا ولا تأثيما} [الواقعة: 25]، وكذلك لو قال: لا آكل كذا ولا كذا، أو لا أكلم فلانا ولا فلانا، وكذلك إن أدخل حرف أو بينهما؛ لأن في موضع النفي حرف أو بمعنى ولا قال الله تعالى: {ولا تطع منهم آثما أو كفورا} [الإنسان: 24] يعني ولا كفورا، فصار كل واحد منهما كأنه عقد عليه اليمين بانفراده، بخلاف ما إذا ذكر حرف الواو بينهما، ولم يعد حرف النفي؛ لأن الواو للعطف فيصير في المعنى جامعا بينهما، ولا يتم الحنث إلا بوجودهما

ترجمہ: اور اگر کسی نے کہا: (اللہ کی قسم)میں نہ کھانے کو چکھوں گا، اور نہ پینے کوپھر اس نے ان میں سے کسی ایک کو چکھ لیا، تو وہ حانث (قسم توڑنے والا)ہو جائے گا؛ کیونکہ اس نے حرفِ نفی (نہ) کو دہرایا، تو اس سے معلوم ہوا کہ اس کا مطلب ہر ایک چیز کو علیحدہ طور پر منع کرنا ہے، جیسے اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وہ وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے اور نہ گناہ کی بات۔ اسی طرح اگر اس نے کہا: میں فلاں چیز کو نہیں کھاؤں گا اور نہ فلاں کو، یا اس نے کہا: میں فلاں سے بات نہیں کروں گا اور نہ ہی فلاں سے(تو بھی یہی حکم ہوگا)۔ اسی طرح اگر ان کے درمیان حرف ِ"اَوْ(یا) "داخل کیا تو بھی یہی حکم ہے؛ کیونکہ نفی کے مقام پرحرفِ اَوْ کا مطلب "وَلَا"(اور نہیں ) ہوتا ہے، جیسے اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ان میں سے کسی گناہ گار یا ناشکرے کی بات نہ مانو، یعنی نہ ہی نا شکرے کی بات مانو، تو (ایسی صورتوں میں) ان دونوں میں سے ہر ایک ایسے ہی ہے گویا اس پر علیحدہ علیحدہ قسم قائم کی گئی ہے۔ برعکس اس صورت کے جب ان دونوں میں حرفِ "واو" کو ذکر کیا ہو اور نفی کو نہ دوہرایا ہو، کیونکہ”واو“ عطف کے لیے آتی ہے اور معنی میں دونوں جمع ہوجاتے ہیں، تو اس صورت میں دونوں کے پائے جانے سے ہی قسم توٹے گی۔ (المبسوط للسرخسی، جلد08، صفحہ 175، دار المعرفة، بيروت)

اسی طرح رد المحتار علی در مختار میں ہے:

وفي المحيط في: كلام فلان وفلان علي حرام أو والله لا أكلم فلانا وفلانا الصحيح أنه لا يحنث في المسألتين ما لم يكلمهما إلا أن ينوي كلام واحد منهما فيحنث بكلام أحدهما لأنه شدد على نفسه . قلت: وهذا إذا لم يذكر لا بعد العاطف

ترجمہ: اور محیط میں ہے (اگر کسی نے کہا): فلاں اور فلاں پر میرا کلام حرام ہے یایہ کہا کہ اللہ کی قسم میں فلاں اور فلاں سے بات نہیں کروں گا، تو ان دونوں صورتوں میں صحیح (قول) یہ ہے کہ دونوں مسئلوں میں جب تک وہ دونوں سے بات نہ کرے، اس پر قسم نہیں ٹوٹے گی۔ ہاں، اگر اس نے ان میں سے کسی ایک سے بھی بات نہ کرنے کی نیت کی ہو، تو پھر کسی ایک سے بھی بات کرنے سے قسم توڑنے والاہوگا، کیونکہ اس نے اپنی ذات پر خود سختی کی ہے۔میں (علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ) کہتا ہوں کہ یہ اس وقت ہے جب عطف کے بعد "لا" کو ذکر نہ کیا ہو۔ (رد المحتار علی در مختار، جلد03، صفحہ731، دار الفکر، بیروت )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: OKR-0093

تاریخ اجراء: 01 ربیع الثانی 1447 ھ/25ستمبر2025ء