
مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: Gul-3399
تاریخ اجراء: 07شعبان المعظم 1446 ھ/06 فروری 2025 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ اگر کوئی شخص کوئی منت مانے اور اس کے بعد اس کا مقصد پورا بھی ہو جائے، لیکن اب اسے یاد نہ رہے کہ منت روزوں کی تھی یا نماز کی یا کسی اور چیز کی، البتہ یہ حتمی طور پر معلوم ہو کہ کوئی منت مانی تھی، تو اب اس منت سے برئ الذمہ ہونے کی کیا صورت ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں منت ماننے والے شخص پر قسم کا کفارہ لازم آئے گا۔
قسم کا کفارہ لازم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص منت مانے، لیکن جس چیز کی منت مانی ہے اس چیز کو ذکر نہ کرے، تو اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوتا ہے اور جس کو شک ہو کہ اس نے نماز،روزے وغیرہ میں سے کس چیز کی منت مانی تھی، یہ متعین معلوم نہیں ہے، اس شخص کا بھی فقہائے کرام نے وہی حکم بیان کیا ہے، جو منت میں کسی چیز کوذکر نہ کرنے والے کا ہے یعنی قسم کاکفارہ ادا کرے۔
قسم کا کفارہ ایک غلام آزاد کرنا یا دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلانا یا ان کو کپڑے پہنانا ہے یعنی یہ اختیار ہے کہ ان تین باتوں میں سے جو چاہے کرے۔ اگر رقم کے ذریعے قسم کا کفارہ ادا کرنا چاہیں تو دس شرعی فقیروں میں سے ہر ایک کو الگ الگ ایک صدقہ فطر کی مقدار رقم کا مالک بنا دیں، یوں بھی قسم کا کفارہ ادا ہوجائے گا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک شرعی فقیر کو دس دن تک روزانہ ایک صدقہ فطر کی رقم کا مالک بنایا جائے ۔
الاشباہ والنظائر میں ہے:
”شك في المنذور هل هو صلاة أم صيام، أو عتق، أو صدقة ينبغي أن تلزمه كفارة يمين أخذا من قولهم: لو قال: علي نذر فعليه كفارة يمين؛ لأن الشك في المنذور كعدم تسميته“
یعنی جس کو منت میں شک ہو کہ وہ نماز ہے، روزہ ہے، غلام آزاد کرنا ہے یا صدقہ ہے، تو اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوگا۔ یہ مسئلہ فقہائے کرام کے اس مسئلے سے اخذ کیا گیا ہے کہ اگر کوئی کہے مجھ پر نذر ہے، تو اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوگا کیونکہ منت میں شک کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے منت والی چیز کو ذکرنہ کرنے والا۔ (الاشباہ و النظائر، صفحہ 53، دار الکتب العلمیۃ)
جس منت میں منت والی چیز کو ذکر نہ کیاہو، اس میں قسم کاکفارہ لازم ہوتا ہے جیسا کہ بدائع الصنائع میں ہے:
”النذر الذي لا تسمية فيه فحكمه وجوب ما نوى إن كان الناذر نوى شيئا۔۔۔ و إن لم تكن له نية فعليه كفارة اليمين“
یعنی ایسی منت جس میں کسی چیز کوذکر نہ کیا گیا ہو، تو اس کا حکم یہ ہے کہ منت ماننے والے نے اگر کسی چیز کی نیت کی تھی تو جس چیز کی نیت کی تھی وہ شے منت کی وجہ سے لازم ہوجائے گی،۔۔۔ اورا گرکوئی نیت نہ ہو تو پھر قسم کا کفارہ اس پرلازم ہوگا۔ (بدائع الصنائع، جلد 5، صفحہ 92، دار الکتب العلمیۃ)
بہار شریعت میں ہے: ” منّت میں اگر کسی چیز کو معین نہ کیا مثلاً کہا اگر میرا یہ کام ہوجائے تو مجھ پر منّت ہے یہ نہیں کہا کہ نماز یا روزہ یاحج وغیرہا تو اگر دل میں کسی چیز کو معین کیا ہو تو جو نیت کی وہ کرے اور اگر دل میں بھی کچھ مقرر نہ کیا تو کفارہ دے۔“ (بھار شریعت، جلد 2، حصہ 9، صفحہ 315، مکتبۃ المدینہ)
قسم توڑنے کے کفارے سے متعلق قرآن مجید میں ہے:
﴿لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِیْۤ اَیْمَانِكُمْ وَ لٰكِنْ یُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَۚ-فَكَفَّارَتُهٗۤ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَهْلِیْكُمْ اَوْ كِسْوَتُهُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍؕ-فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ اَیَّامٍؕ-ذٰلِكَ كَفَّارَةُ اَیْمَانِكُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ﴾
ترجمہ کنزالایمان: اللہ تمہیں نہیں پکڑتا تمہاری غلط فہمی کی قسموں پر ہاں ان قسموں پر گرفت فرماتا ہے جنہیں تم نے مضبوط کیا تو ایسی قسم کا بدلہ دس مسکینوں کو کھانا دینا اپنے گھر والوں کو جو کھلاتے ہو اس کے اوسط میں سے یا انہیں کپڑے دینا یا ایک بردہ آزاد کرنا تو جو ان میں سے کچھ نہ پائے تو تین دن کے روزے یہ بدلہ ہے تمہاری قسموں کا جب قسم کھاؤ۔ (پارہ 7، سورۃ مائدہ، آیت 89)
بہار شریعت میں ہے: ”قسم کا کفارہ غلام آزاد کرنا یا دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا ان کو کپڑے پہنانا ہے یعنی یہ اختیار ہے کہ ان تین باتوں میں سے جو چاہے کرے۔۔۔ مساکین کو دونوں وقت پیٹ بھر کر کھلانا ہوگااور جن مساکین کو صبح کے وقت کھلایا انہیں کو شام کے وقت بھی کھلائے دوسرے دس مساکین کو کھلانے سے ادانہ ہوگا۔ اور یہ ہوسکتا ہے کہ دسوں کو ایک ہی دن کھلادے یا ہرروزایک ایک کو یا ایک ہی کو دس دن تک دونوں وقت کھلائے۔ اور مساکین جن کو کھلایا، ان میں کوئی بچہ نہ ہو اور کھلانے میں اباحت و تملیک دونوں صورتیں ہوسکتی ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کھلانے کے عوض ہر مسکین کو نصف صاع گیہوں یا ایک صاع جو یا ان کی قیمت کا مالک کردے یا دس روز تک ایک ہی مسکین کو ہر روز بقدر صدقہ فطر دےدیا کرے یا بعض کو کھلائے اور بعض کو دیدے۔“(بھار شریعت جلد2، حصہ 9، صفحہ 305، مکتبۃ المدینہ)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم