Nawafil Ki Mannat Mein Muayyan Din Se Pehle Ya Baad Nawafil Parhna

نوافل کی منت میں متعین دن سے پہلے یا بعد نوافل پڑ ھ سکتے ہیں؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:FSD-9142

تاریخ اجراء:17 ربیع الثانی 1446 ھ / 21 اکتوبر 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ زید نے منت مانی کہ اگر میرا بیٹا ٹھیک ہو گیا، تو میں گیارہویں پر بارہ نوافل پڑھوں گا، بیٹا گیارہویں سے پہلے  ہی ٹھیک ہو گیا، تو کیا یہ نوافل گیارہویں   کے دن ہی پڑھنا ضروری ہیں یا پہلے اور بعد بھی پڑھ سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں نوافل کی منّت ، شرعی منّت ہے،جس کا پورا کرنا واجب ہے اور منّت کے نوافل گیارہویں پر  ادا کرنا ہی ضروری نہیں، بلکہ مریض  کے ٹھیک ہو جانے کے بعد گیارہویں  پر، اس سے پہلے یا بعد  کسی بھی دن ادا کیے جا سکتے ہیں، کیونکہ  ایسی منّت  جو کسی شرط پر معلق ہو (مثلاً میرا مریض ٹھیک ہو گیا، تو اتنے نوافل پڑھوں گا)، اس میں جس عمل کی منت مانی(مثلاً نوافل) اس کے درست ہونے کے لیے شرط (مریض  کا ٹھیک ہو جانا) کا پایا جانا ضروری ہے،  شرط   سے پہلےوہ عمل کر لیا، تو  منّت پوری نہیں ہوگی، بلکہ شرط کے پائے جانے کے بعد  وہ عمل دوبارہ کرنا ضروری ہوگا۔ نیز   شرط پائے جانے کے بعد بھی فی الفور منّت کو پورا کرنا ضروری نہیں، ہاں  بہتر یہ ہے کہ جتنا جلدی ہو سکے منّت پوری کی جائے۔

   نذرِشرعی میں شرط پائی جانے کی صورت میں منت کو پورا کرنا واجب ہوتا ہے، جیساکہ تنویر الابصار و درمختار میں ہے: ”فان علقہ بشرط يريدہ كان قدم غائبي او شفى مريضي یوفی وجوباً ان وجد الشرط“ ترجمہ: اگر کوئی شخص نذر کو کسی ایسی شرط پر معلق کرے، جس کا ہونا اسے پسند ہے، جیساکہ وہ کہے: اگراللہ تعالیٰ میرے غائب کو واپس لوٹا دے یا اللہ تعالیٰ میرے مریض کو شفا دے دے، تو اب شرط پائے جانے کی صورت میں اس نذر کو پورا کرنا واجب ہوگا۔(تنویر الابصار و درمختار،کتاب الایمان، جلد 05، صفحہ 542، 543، مطبوعہ کوئٹہ)

   بہار شریعت میں ہے:”اگر ایسی چیز پر معلق کیا کہ اس کے ہونے کی خواہش ہے،مثلاً: اگر میرا لڑکا تندرست ہوجائے یا پردیس سے آجائے یا میں روزگار سے لگ جاؤں، تو اتنے روزے رکھوں گا یا اتنا خیرات کروں گا، ایسی صورت میں جب شرط پائی گئی یعنی بیمار اچھا ہوگیا یا لڑکا پردیس سے آگیا یا روزگار لگ گیا، تو اتنے روزے رکھنا یا خیرات کرنا ضرور ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ یہ کام نہ کرے اور اس کے عوض میں کفارہ دیدے۔“(بھارشریعت، جلد02، صفحہ 314، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   نذرِمعلق میں شرط پائی جانے کے بعد کسی بھی وقت نوافل ادا کیے جا سکتے ہیں، لیکن شرط سے پہلے ادا نہیں کر سکتے، چنانچہ علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:النذر المعلق، فإنه لا يجوز تعجيله قبل وجود الشرط  .قلت: وقدمنا هناك الفرق وهو أن المعلق على شرط لا ينعقد سببا للحال كما تقرر في الأصول بل عند وجود شرطه، فلو جاز تعجيله لزم وقوعه قبل سببه فلا يصح، ويظهر من هذا أن المعلق يتعين فيه الزمان بالنظر إلى التعجيل، أما تأخيره فالظاهر أنه جائز إذ لا محذور فيه، وكذا يظهر منه أنه لا يتعين فيه المكان والدرهم والفقير یعنی : نذرِ معلق میں شرط کے پائے جانے سے پہلے عمل کرنا، جائز نہیں۔ میں کہتا ہوں : یہاں (نذرِ معلق و غیر معلق  کے درمیان) فرق بیان کیا  گیا ہے، وہ یہ کہ  ایسی نذر جو کسی شرط پر معلق ہو ، یہ فی الفور سبب  کے طور پر منعقد  نہیں ہوتی، بلکہ جس وقت شرط پائی جاتی ہے، تب ہی  بطورِ سبب منعقد ہوتی ہے، تو اگر شرط کے پائے جانے سے پہلے ہی عمل کرنا،  جائز ہو، تو  سبب سے پہلے ہی اس کا وقوع لازم آئے گا، حالانکہ یہ صحیح نہیں، معلوم ہوا نذرِ معلق میں  تعجیل کے اعتبار سے زمانہ متعین ہوتا ہے،  ہاں    سبب سے مؤخر کرنا، جائز ہے، اس کی ممانعت نہیں۔ البتہ   جگہ، درہم و دینار اور  کسی خاص فقیر  کو متعین کیا، تو یہ متعین نہیں ہوں گے۔(ردالمحتار، کتاب الایمان، جلد5، صفحہ546، مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارِ شریعت میں ہے :جمعہ کے دن نماز پڑھنے کی منّت مانی اور جمعرات کو پڑھ لی منّت پوری ہوگئی، یعنی جس منّت میں شرط نہ ہو اوس میں وقت کی تعیین کا اعتبار نہیں یعنی جووقت مقرر کیا ہے اس سے پہلے بھی ادا کرسکتا ہے اور جس میں شرط ہے اس میں ضرور ہے کہ شرط پائی جائے بغیر شرط پائی جانے کے ادا کیا،  تو منّت پوری نہ ہوئی شرط پائی جانے پر پھر کرنا پڑے گا، مثلاً کہا اگر بیمار اچھا ہوجائے تو دس روپے خیرات کروں گا اور اچھا ہونے سے پہلے ہی خیرات کردیے، تو منّت پوری نہ ہوئی اچھے ہونے کے بعد پھر کرنا پڑے گا۔ باقی جگہ اور روپے اور فقیروں کی تخصیص دونوں میں بیکار ہے خواہ شرط ہو یانہ ہو۔(بھارشریعت، جلد02،صفحہ316، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم